سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(966) ابروؤں کے بال مونڈنا یا کترنا

  • 18573
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-20
  • مشاہدات : 705

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ابروؤں کے بال مونڈنا یا کترنا یا کسی پاؤڈر یا پیسٹ وغیرہ سے دور کرنا کیسا ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

کسی مسلمان خاتون کے لیے حرام ہے کہ اپنے ابروؤں کے بال کل یا بعض مونڈے یا کتروائے یا کوئی پاوڈر یا پیسٹ وغیرہ اس مقصد کے لیے استعمال کرے۔ کیونکہ یہ عمل "نمص" میں شمار ہوتا ہے (یعنی بال نوچنا اور اکھیڑنا)، اور جو کوئی عورت یہ کام کرے اس کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت کی ہے۔ آپ نے نامصہ اور متنمصہ کو لعنت فرمائی ہے۔ نامصہ وہ عورت ہوتی ہے جو بغرض زینت اپنے ابروؤں کے بال یا ان کا کچھ حصہ نوچے۔ اور متنمصہ وہ ہے جو یہ کام کروائے۔ اور یہ کام اللہ کی خلقت اور پیدائش کو تبدیل کرنا ہے، جس کا شیطان نے وعدہ کیا تھا کہ وہ ابن آدم کو اس کا حکم دے گا۔ جیسے کہ قرآن کریم میں اس کا بیان آیا ہے:

﴿وَلَءامُرَنَّهُم فَلَيُغَيِّرُنَّ خَلقَ اللَّهِ ...﴿١١٩﴾... سورةالنساء

’’شیطان نے کہا ۔۔ میں انہیں ضرور حکم دوں گا، پھر وہ اللہ کی خلقت اور پیدائش کو تبدیل کریں گے۔‘‘

صحیح حدیث میں ہے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

لعن الله الواشمات والمستوشمات والنامصات والمتنمصات والمفلجات للحسن المغيرات خلق الله عزوجل

’’اللہ کی لعنت ہے ان عورتوں پر جو جسم گودتی ہیں اور جو گدواتی ہیں، اور ان عورتوں کو جو بال نوچتی اور جو نچواتی ہیں اور جو حسن و جمال کی خاطر اپنے دانتوں کو باریک کرواتی اور اللہ کی پیدا کردہ صورت کو تبدیل کرتی ہیں۔‘‘

پھر جناب عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: میں بھی اس پر لعنت بھیجتا ہوں جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت کی ہے، اور یہ بات اللہ کی کتاب میں بھی ہے۔ ان کا اشارہ اللہ عزوجل کے اس فرمان کی طرف تھا:

﴿وَما ءاتىٰكُمُ الرَّسولُ فَخُذوهُ وَما نَهىٰكُم عَنهُ فَانتَهوا ... ﴿٧﴾... سورةالحشر

’’اور رسول جو کچھ تمہیں دیں وہ لے لو، اور جس سے روک دیں اس سے رک جاؤ۔‘‘

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

احکام و مسائل، خواتین کا انسائیکلوپیڈیا

صفحہ نمبر 684

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ