السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا حدیث مبارکہ (لعن الله الواصلة والمستوصلة) کے معنی میں یہ چیزیں بھی شامل ہیں جو ہمارے طالبات کے مدارس میں مروج اور معمول ہیں، مثلا طالبات ربنوں سے کوئی پھول وغیرہ بنا کر اپنے سروں پر باندھتی ہیں، یا ایک سفید ربن گردن میں لپیٹا جاتا ہے اور پھر اس کا ایک حصہ سینے پر لٹکایا جاتا ہے اور یہ سب زینت کے طور پر ہوتا ہے۔ میری بچیاں ہیں، سکولوں میں پڑھتی ہیں، مجھے ان چیزوں میں اللہ کی نافرمانی کا ڈر ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ذکر کی گئی حدیث جو صحیح بخاری و مسلم میں ہے، اس کے معنی اور مفہوم یہ ہیں کہ اگر کوئی عورت کوئی دوسرے بال مستعار لے کر اپنے بالوں سے جوڑے تو یہ وصل ہے، وصلہ ہے، اور مستوصلہ وہ ہے جو یہ کام کروائے، اور واصلہ وہ ہے جو یہ کام کرے۔ اور اس نہی کی حکمت یہ ہے کہ بعض اوقات زواج وغیرہ میں دھوکہ دینے کے لیے یہ کام کیا جاتا ہے۔ جیسے کہ صحیح بخاری میں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں اسے زُور یعنی جھوٹ (اور دھوکے) سے تعبیر کیا گیا ہے۔ جب حدیث نبوی کے معنی و مفہوم اور اس کی حکمت نہی واضح ہو گئی تو معلوم ہوا کہ طالبات جو اپنے سروں پر ربن سے پھول وغیرہ بنا کر لگا لیتی ہیں، وہ اس میں شامل اور شمار نہیں ہیں، اور اسی طرح جو سفید پٹی گلےمیں لپیٹ کر اس کا ایک حصہ سینے پر لمبا لٹکا لیا جاتا ہے اگر یہ چیز کافروں کا مخصوص عمل نہ ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ کیونکہ ان امور میں اصل ان کا حلال ہونا ہے۔
اور ضروری ہے کہ لڑکی یہ چیزین جو بطور زینت استعمال کرے تو اسے غیر محرموں سے چھپا لے جبکہ اس پر پردہ کرنا واجب ہو۔ لیکن یہ چیزیں اگر کفار کے خاص اعمال ہوں تو ان کا استعمال حرام ہو گا کیونکہ کافروں کی مشابہت حرام ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب