السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
آج کل ہمیں ایک بڑی اہم بحث کا سامنا ہے، یعنی چمڑے کی جیکٹ پہننا۔ بعض بھائی کہتے ہیں کہ یہ عموما خنزیر سے بنتی ہے۔ اس صورت میں ان کے پہننے کا کیا حکم ہے؟ کیا دینی لحاظ سے یہ جائز ہو سکتی ہیں؟ بعض دینی کتب مثلا علامہ قرضاوی کی " الحلال والحرام " یا " الدين على المذاهب الاربعة " وغیرہ میں اس کا ذکر تو کیا گیا ہے مگر وضاحت سے کچھ نہیں لکھا ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
جواب: صحیح احادیث میں نبی علیہ السلام کا یہ فرمان ثابت ہے کہ:
إذا دبغ الجلد فقد طهر
’’جب چمڑے کو رنگ دیا جائے تو وہ پاک ہو جاتا ہے۔‘‘ (احادیث میں' الجلد'کی جگہ' الاهاب'ہے:صحیح مسلم،کتاب الحیض،باب طہارۃجلودالمیتةبالدباغ،حدیث:366وسنن ابی داود،کتاب اللباس،باب فی اھب المیت،حدیث:4123السنن الکبری للبیھقی:20/1،حدیث:68۔)
اور فرمایا:
دبغ جلد الميت طهورها
’’مردار جانور کے چمڑے کا رنگ دیا جانا اس کی پاکیزگی اور طہارت ہے۔‘‘ (روایت کے بعینہ الفاظ نہیں ملے البتہ' دباغ جلد الميتة ذكاته'کے الفاظ ایک روایت میں موجود ہیں الاستذکار لابن عبدالبر:302/5بطور اسم' دبغ'کے بجائے' دباغ'کا لفظ مستعمل ہے اور' الميت'کی جگہ'الميتة'کا لفظ استعمال ہوا ہے۔
پھر علماء کا اس مسئلہ میں اختلاف ہے کہ آیا یہ حدیث تمام قسم کے چمڑوں کو شامل ہے یا صرف ان مردہ جانوروں کے چمڑوں کے ساتھ جو ذبح کرنے سے حلال ہو جاتے ہیں؟
اور اس میں تو کوئی شبہ نہیں کہ جو جانور ذبح سے حلال کیے جاتے ہیں وہ اگر مردہ ہو جاتے ہیں جیسے کہ اونٹ گائے وغیرہ ہیں تو ان کے چمڑے کا استعمال (رنگنے کے بعد) ہر طرح جائز ہے۔ علماء کا صحیح تر قول یہی ہے۔ اور خنزیر اور کتا وغیرہ جو ذبح سے حلال نہیں ہوتے، ان کے چمڑے رنگنے سے پاک ہونے کے بارے میں اختلاف ہے۔ اور زیادہ احتیاط اسی میں ہے کہ اسے استعمال نہ کیا جائے۔ نبی علیہ السلام کا قول ہے:
ومن اتقى الشهبات فقد استبرأ لدينه و عرضه
’’جو بندہ شبہ والی چیزوں سے بچا اس نے اپنے دین اور اپنی عزت کو بچا لیا۔‘‘ (صحیح مسلم،کتاب المسافات،باب اخذ الحلال وترک الشبھات،حدیث:1599وسنن ابی داود،کتاب البیوع،باب فی اجتناب الشبھات،حدیث:3330وسنن ابن ماجہ،کتاب الفتن،باب الوقوف عند الشبھات،حدیث:3984۔)
اور آپ کا یہ فرمان بھی ہے:
دع ما يريبك إلى ما لا يريبك
’’شبہ والی چیز کو چھوڑ کر وہ چیز اختیار کر جس میں تجھے کوئی شبہ نہ ہو۔‘‘ (صحیح بخاری،کتاب البیوع،باب تفسیر المشبھات(ترجمۃالباب)وسنن الترمذی،کتاب صفة القیامةوالرقائق والورع،باب صفۃ اوانی الحوض(باب منہ)،حدیث:2518وسنن النسائی،کتاب آداب القضاءة،باب الحکم باتفاق اھل العلم،حدیث:5397ومسند احمد بن حنبل:200/1،حدیث:1723۔)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب