سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(928) برقعہ اور دستانوں کا استعمال

  • 18535
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-20
  • مشاہدات : 709

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

عورتوں کے لیے برقع اور دستانوں کے استعمال کا کیا حکم ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

عورت کو پردے کی غرض سے دستانے استعمال کرنے چاہئیں، اور برقع کا استعال بھی جائز ہے جبکہ دیکھنے کی غرض سے اس سے دونوں آنکھیں یا ایک آنکھ ظاہر ہو اور باقی چہرہ چھپا ہوا ہو، اور اس کے لیے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا قول دلیل ہے۔ وہ احرام والی کے لیے فرماتی ہیں کہ:

لَا تَلَثَّمْ وَلَا تَتَبَرْقَعْ وَلَا تَلْبَسْ ثَوْبًا بِوَرْسٍ وَلَا زَعْفَرَانٍ

’’احرام والی عورت اپنا منہ نہ لپیٹے (ڈھاٹا نہ باندھے)، برقع نہ لے اور کوئی ایسا کپڑا بھی استعمال نہ کرے جو ورس یا زعفران سے رنگا گیا ہو۔‘‘(بخاری،کتاب الحج،باب مایلبس المحرم من الثیاب والاردیةوالازر،(ترجمةالباب))

اور اسی معنی میں سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت ہے، وہ فرماتے ہیں:

لَا تَتَنَقَّبِ الْمُحْرِمَةُ وَلَا تَلْبَسِ الْقُفَّازَيْنِ (صحیح بخاری،کتاب ابواب الاحصار وجزاءالصید،باب ماینھی من الطب للمحرم والمحرمۃ،حدیث:1741وسنن الترمذی،کتاب الحج،باب مالایجوز للمحرم لبسہ،حدیث:833وسنن النسائی،کتاب مناسک الحج،باب النھی عن ان تنتف المراۃالحرام،حدیث:2673ومسند احمد بن حنبل:119/2،حدیث:6003۔)

’’احرام والی عورت نقاب نہ لے اور نہ دستانے پہنے۔‘‘

یہ روایات دلیل ہیں کہ عورت احرام کے علاوہ دیگر حالات میں برقع اور دستانے پہن سکتی ہے۔ اگر یہ مفہوم نہ ہو تو احرام کی حالت میں اسے ان سے منع کرنے کے کوئی معنی نہیں رہ جاتے۔

ہمارے بعض علماء کا خیال ہے کہ اس دور میں برقع کے جواز کا فتویٰ نہیں دینا چاہئے کیونکہ یہ فساد کا ذریعہ بن گیا ہے اور عورتیں اب آنکھوں کے ساتھ ساتھ چہرے کا بھی کچھ حصہ ظاہر رکھتی ہیں جو فتنے کا باعث ہے، بالخصوص جب وہ سرمہ وغیرہ بھی لگا لیتی ہیں۔ ان حضرات کا روکنا یقینا فتنے کا دروزہ بند کرنے کے معنی میں بہت ہی بہتر ہے۔

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

احکام و مسائل، خواتین کا انسائیکلوپیڈیا

صفحہ نمبر 656

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ