سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(913) پردہ کرنے والی کا مذاق اڑانا

  • 18520
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-19
  • مشاہدات : 614

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میں ایک پریشان حال لڑکی ہوں، ایک ایسے گھرانے میں ہوں جس پر لادینی غالب ہے۔ میں حجاب کیا کرتی تھی، مگر مجھ پر از حد سختی کی گئی، مذاق اڑایا گیا، حتی کہ انہوں نے مجھے مارا بھی، اور گھر سے نکلنے پر پابندی لگا دی، تو اس طرح مجھے مجبورا حجاب چھوڑنا پڑا۔ اب چادر لیتی ہوں اور چہرہ میرا کھلا ہوتا ہے۔ تو میں کیا کروں؟ کیا گھر سے نکل جاؤں؟ مگر باہر وحشی انسان بہت زیادہ ہیں۔ میں آپ سے رہنمائی کی خواستگار ہوں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس سوال میں دو مسئلے ہیں:

پہلا مسئلہ:۔۔۔ گھر والوں کا اس لڑکی کے ساتھ برا برتاؤ۔ یہ لوگ یا تو حق سے جاہل ہیں یا جانتے ہیں مگر متکبر ہیں، تب تو یہ ایک وحشت ناک کیفیت ہے۔ انہیں اس طرح کا سلوک کسی طرح جائز نہیں۔ کسی نوجوان لڑکی کا شرعی حجاب لینا نہ تو کوئی عیب ہے نہ ہی کوئی گستاخی۔ انسان اپنی شرعی حدود میں آزاد ہے (جو کرنا چاہتا ہے کرے، اور جو نہیں کرتا اپنا انجام خود دیکھ لے گا)۔ یہ لوگ اگر اس مسئلے سے جاہل اور ناواقف ہیں کہ پردہ کرنا ایک عورت کے لیے واجب ہے، تو ایسے لوگوں کو جاننا چاہئے (اور انہیں بتایا جانا چاہئے) کہ کتاب و سنت کی روسے یہ واجب ہے اور اگر یہ لوگ جاننے بوجھنے کے باوجود اس سے اعراض کرتے ہیں تو یہ تکبر ہے اور بڑی مصٰبت، جیسے کہ کسی کہنے والے نے کہا ہے:

فان كنت لا تدرى فتلك مصيبة

وان كنت تدرى فالمصيبة اعظم

’’اگر تجھے خبر نہیں اور تو لا علم ہے تو یہ ایک مصیبت ہے۔ اور اگر تجھے علم ہے تو  یہ اس سے بڑھ کر مصیبت ہے۔‘‘

دوسرا مسئلہ:۔۔۔ اس لڑکی سے متعلق ہے۔ ہم اسے یہی کہیں گے کہ آپ پر واجب ہے کہ جہاں تک ہو سکے اللہ کا تقویٰ اختیار کریں۔ اگر گھر والوں کے علم میں لائے بغیر حجاب استعمال کر سکتی ہیں تو استعمال کریں لیکن اگر وہ مار کٹائی اور حجاب اتارنے کے لیے مجبور کرنے تک آ گئے ہیں (اور اسے اتارنا پڑتا ہے) تو اس پر آپ کو کوئی گناہ نہیں۔ جیسے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:

﴿مَن كَفَرَ بِاللَّهِ مِن بَعدِ إيمـٰنِهِ إِلّا مَن أُكرِهَ وَقَلبُهُ مُطمَئِنٌّ بِالإيمـٰنِ وَلـٰكِن مَن شَرَحَ بِالكُفرِ صَدرًا فَعَلَيهِم غَضَبٌ مِنَ اللَّهِ وَلَهُم عَذابٌ عَظيمٌ ﴿١٠٦﴾... سورة النحل

’’جس شخص نے ایمان لے آنے کے بعد کفر کیا، سوائے اس کے جس کا دل ایمان پر مطمئن تھا (تو اس پر کوئی حرج نہیں)، لیکن جس نے کھلے دل سے کفر کیا تو ایسے لوگوں پر اللہ کا غضب ہے اور ان کے لیے بڑا عذاب ہے۔‘‘

اور فرمایا:

﴿ وَلَيسَ عَلَيكُم جُناحٌ فيما أَخطَأتُم بِهِ وَلـٰكِن ما تَعَمَّدَت قُلوبُكُم وَكانَ اللَّهُ غَفورًا رَحيمًا ﴿٥﴾... سورة الاحزاب

’’تم پر کوئی گناہ نہیں ہے جس میں تم سے خطا ہوئی، لیکن جو تمہارے دلوں نے جان بوجھ کر کیا (تو اس کا مواخذہ ہے) اور  اللہ تعالیٰ بخشنے والا بڑا رحم کرنے والا ہے۔‘‘

اور گھر والے اگر پردے کی حکمت اور فوائد سے آگاہ نہ ہوں تو اسے چاہئے کہ وہ انہیں بتائے کہ مومن کے ذمے سب سے بڑھ کر یہ بات ہے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کا حکم ماننے والا ہو، اسے ان حکموں کی حکمتیں اور فوائد سمجھ میں آئیں یا نہ آئیں، مسلمان کے ذمے ان کا ماننا ہے اور خود یہ اطاعت ہی سب سے بڑی حکمت ہے۔ فرمایا:

﴿وَما كانَ لِمُؤمِنٍ وَلا مُؤمِنَةٍ إِذا قَضَى اللَّهُ وَرَسولُهُ أَمرًا أَن يَكونَ لَهُمُ الخِيَرَةُ مِن أَمرِهِم وَمَن يَعصِ اللَّهَ وَرَسولَهُ فَقَد ضَلَّ ضَلـٰلًا مُبينًا ﴿٣٦﴾... سورة الاحزاب

’’کسی صاحب ایمان مرد یا عورت کو قطعا لائق نہیں کہ جب اللہ اور اس کے رسول نے کسی بات کا فیصلہ کر دیا ہو تو انہیں اپنے معاملے میں اپنا کوئی اختیار باقی ہو، اور جس نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی، وہ گمراہ ہوا واضح گمراہ ہونا۔‘‘

یہی وجہ ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے جب پوچھا گیا کہ اس میں کیا حکمت ہے کہ ھائضہ عورت روزوں کی قضا دیتی ہے لیکن نمازوں کی قضا نہیں دیتی؟ انہوں نے جواب میں (یہی) کہا: ’’ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں یہ عارضہ لاحق ہوتا تھا تو ہمیں حکم دیا جاتا تھا کہ روزوں کی قضا دیں، نمازوں کی قضا کا نہیں کہا جاتا تھا۔‘‘ (صحیح مسلم،کتاب الحیض،باب وجوب قضاءالصوم علی الحائض،حدیث:335وسنن الترمذی،کتاب الصوم،باب قضاء الحائض الصیام دون الصلاۃ،حدیث:787وسنن النسائی،کتاب الصیام،باب وضع الصیام عن الحائض،حدیث:2318۔)

اس میں انہوں نے محض اللہ کا حکم (اور اس کی اطاعت ہی) کو حکمت بتایا ہے۔

بہرحال مسئلہ حجاب کی حکمتیں اور  فوائد بالکل واضح ہیں کہ عورت کا اپنے حسن و جمال کو نمایاں کرنا ایک بڑے فتنے کا باعث ہے، اس سے گناہ اور بے حیائی آتی ہے۔ اور جب گناہ اور بے حیائی عام ہو جائیں تو یہ ہلاکت اور تباہی کا پیش خیمہ ہوتے ہیں۔

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

احکام و مسائل، خواتین کا انسائیکلوپیڈیا

صفحہ نمبر 645

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ