سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(900) ’’ نبیﷺ کی موجودگی میں اپنے نکاح کا پیغام دینے والے کو کھلے منہ مشروب پیش کیا‘‘ حدیث کا جواب

  • 18507
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-25
  • مشاہدات : 968

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

صحیح مسلم میں ہے کہ ایک لڑکی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں اپنے نکاح کا پیغام دینے والے کو کھلے منہ مشروب پیش کیا تھا۔ آپ اس حدیث کا کیا جواب دیں گے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

یہ اور اس قسم کی سب احادیث جن میں بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام کی عورتیں اپنے چہرے کھلا رکھا کرتی تھیں۔ اس بات پر معمول میں کہ یہ سب واقعات فرضیت حجاب سے پہلے کے ہیں۔ کیونکہ وہ آیات جن میں پردے کے وجوب کا بیان ہے چھٹی ہجری کے آخری میں نازل ہوئی ہیں، اور اس سے پہلے پردے کا کوئی اہتمام نہ تھا اور کچھ احادیث ایسی بھی ہیں جن میں یہ ہے کہ یہ واقعات نزول حجاب کے بعد کے ہیں۔ یہ اس لائق ہیں کہ ان کا جواب دیا جائے۔ مثلا قبیلہ بنی خثعم کی وہ عورت جو حجۃ الوداع کے دوران میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کرنے آئی تھی، اور فضل بن عباس رضی اللہ عنہ اسے اور وہ انہیں دیکھنے لگی تھی، تو آپ نے حضرت فضل رضی اللہ عنہ کا منہ دوسری طرف موڑ دیا۔ (صحیح بخاری،کتاب الحج،باب وجوب الحج وفضلہ،حدیث:1442وصحیح مسلم،کتاب الحج،باب الحج عن المعاجز لزمانۃوھرم،حدیث:1334وسنن ابی داود،کتاب المناسک،باب الرجل یحج عن غیرہ،حدیث:1809۔)

اس حدیث سے ان لوگوں نے دلیل لی ہے جو کہتے ہیں کہ عورت اپنا چہرہ کھلا رکھ سکتی ہے۔ یہ حدیث بلاشبہ متشابہات میں سے ہے، جس میں جواز اور عدم جواز دونوں کا احتمال ہے۔ جواز کا احتمال تو ظاہر ہے، اور عدم جواز کا احتمال اس طرح ہے کہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ بحالت احرام عورت کا چہرہ کھلا ہونا چاہئے۔ اور کہیں یہ بیان نہیں آیا کہ سوائے نبی علیہ السلام یا فضل بن عباس رضی اللہ عنہ کے کسی اور نے اس کو دیکھا تھا۔ اور پھر فضل بن عباس رضی اللہ عنہ کا چہرہ تو آپ علیہ السلام نے دوسری طرف پھیر دیا تھا۔ آپ نے ان کو اسے دیکھنے کی اجازت نہ دی۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو اس کا عورت کو دیکھنا تو حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بیان کیا ہے کہ آپ کے لیے جائز تھا کہ آپ کسی عورت کو دیکھیں، یا اس کے ساتھ علیحدہ ہو سکیں، جو دوسروں کے لیے جائز نہ تھا۔ جس طرح آپ کو کسی عورت کے ساتھ بلا مہر، بغیر ولی نکاح کی اجازت تھی، اور آپ کو یہ بھی جائز تھا کہ چار سے زیادہ عورتوں کے ساتھ نکاح کر لیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ان امور میں کچھ ایسی وسعت عنایت فرمائی تھی جو کسی اور کے لیے نہ تھی اور آپ اپنی عفت میں بھی کمال انتہا پر تھے اور آپ پر کسی قسم کا کوئی اعتراض نہیں کیا جا سکتا جو کسی دوسرے معزز سے معزز آدمی پر ہو سکتا ہے۔

بہرحال اہل علم کے ہاں ایک قاعدہ ہے ’’جب کسی چیز کا احتمال و امکان ہو تو اس سے استدلال غلط ہوتا ہے۔‘‘ لہذا یہ حدیث متشابہات میں سے ہے (لہذا اس سے استدلال نہیں کیا جا سکتا)۔

اور ایسی متشابہ نصوص کے متعلق ہم پر واجب ہے کہ انہیں واضح اور محکم نصوص کی طرف لوٹایا کریں۔ اور جن ملکوں میں جہاں جہاں عورتوں کے چہرے کھلے رکھنے کی اجازت دی گئی ہے، وہاں اس کے برے نتائج سامنے آ گئے ہیں۔ اور پھر ان عورتوں نے بھی صرف چہرے ہی کھلے رکھنے پر اکتفا نہیں کیا ہے، بلکہ چہرے کے ساتھ سر، گردن، گریبان اور بعض اوقات سینہ تک کھولنے لگی ہیں۔ اور باوجودیکہ لوگ تسلیم کرتے ہیں کہ یہ کیفیت انتہائی بری اور عام ہے، وہ اپنی عورتوں کو اس سے روکنے سے عاجز ہیں۔ اور یقین کیجئے کہ اگر آپ شرم و حیا کا ایک پٹ کھولیں گے تو جلد ہی بہت سے دروازے کھل جائیں گے۔ اگر آپ اسے معمولی سی راہ دیں گے تو آگے چل کر وہ اس قدر پھیل جائے گا کہ آپ اسے بند نہیں کر سکیں گے۔ الغرض شرعی نصوص اور تمام تر عقلی دلائل ثابت کرتے ہیں کہ عورت کو اپنا چہرہ چھپانا واجب ہے۔ اور مجھے تعجب آتا ہے ان حضرات پر جو عورتوں کو اپنے قدم چھپانا تو واجب کہتے ہیں مگر چہرے کھلے رکھنے کی اجازت دیتے ہیں۔ غور کیا جانا چاہئے کہ ان میں سے چھپانے کے زیادہ لائق کیا چیز ہے؟ چہرہ یا قدم؟ کیا بھلا ہاتھوں اور انگلیوں کی خوبصورتی، ان کی نزاکت اور جاذبیت قدموں سے بڑھ کر نہیں ہوتی؟ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ شریعت اسلامی جو اپنے اندر جامعیت اور کمال رکھتی ہے اور حکیم و خیر رب کی طرف سے نازل کی گئی ہے، عورت کو اپنے پاؤں چھپانے کا حکم تو دے اور چہرہ کھلا رکھنے کا کہے، یہ کیسے ہو سکتا ہے؟

یقینا ایسی بات نہیں ہے، یہ ایک بڑا تناقض ہو گا۔ مردوں کی توجہ قدموں کی بجائے چہرے پر کہیں زیادہ ہوتی ہے۔ کیا خیال ہے کہ کوئی نکاح کا پیغام دینے والا کسی عورت کے متعلق اس طرح کہے گا کہ اس کے پاؤں توجہ دے دیکھنا کہ خوبصورت ہیں یا نہیں؟ بلاشبہ یہ ایک محال بات ہے۔ فتنے کا مقام چہرہ ہے، اور اس کے لیے جو لفظ "عورۃ" آتا ہے، اس کے معنی وہ نہیں ہیں جو شرمگاہ کے لیے ہیں، بلکہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ "یہ چھپانے کے لائق ہے۔" یہ لوگ بڑے عجیب ہیں کہ ایک طرف تو عورتوں کے سر کے ایک دو بال ننگے ہونے کو ناجائز کہتے ہیں مگر بنے سنورے سیاہ خوبصورت ابروؤں کا دکھانا جائز کہتے ہیں۔ جبکہ آج کل زیب و زینت کے دسیوں انداز نکل آئے ہیں۔ کہیں سرخیاں ہیں اور کہیں طرح طرح کی کریمیں وغیرہ۔

میں یقین سے کہتا ہوں کہ کوئی انسان جسے عورتوں کے فتنوں کا علم ہو، ناممکن ہے کہ مطلق طور پر ان کے چہرے کھلے رکھنے کا کہے اور پاؤں چھپانے کا حکم دے، اور پھر اسے شریعت کی طرف منسوب کرے؟

اور یہی وجہ ہے کہ متاخرین میں سے کچھ نے لکھا ہے کہ علمائے مسلمین کا اتفاق ہے کہ عورت کے لیے چہرہ چھپانا واجب ہے کیونکہ اس میں بہت بڑا فتنہ ہے۔ جیسے کہ صاحب نیل الاوطار نے ابن ارسلان سے نقل کیا  ہے۔ کہتے ہیں: "اب لوگوں کا ایمان کمزور ہو گیا ہے اور بہت سی عورتوں میں وہ عفت نہیں رہی، تو واجب ہے کہ ان کے چہرے چھپائیں جائیں۔ اگر بالفرض یہ مباح بھی ہو مگر اب حالات کا تقاضا ہے کہ اس کے وجوب ستر کا حکم لگایا جائے۔ کیونکہ جب کوئی مباح کام کسی حرام کا وسیلہ و ذریعہ بن رہا ہو تو وہ حرام ہو جاتا ہے۔ اور قاعدہ بھی یہی ہے۔"

تعجب ہے ان لوگوں پر اور ایسے قلم کاروں پر جو بے حجابی کے مناد بنے ہوئے ہیں، ان کی اس کام کے لیے دعوت اور پکار تو ایسے لگتی ہے گویا یہ کوئی واجب کام تھا جسے لوگ چھوڑ بیٹھے ہیں۔ بالفرض اس مسئلے میں اگر کچھ نرمی تھی بھی تو صرف ایک مناح کام کے لیے اس زور شور سے تحریک چلانا کس طرح درست ہو سکتا ہے جس کے بدترین نتائج اس کے قائلین نے دیکھ لیے ہیں۔

انسان کے لیے واجب ہے کہ بولنے سے پہلے کچھ سوچ بچار کر لیا کرے اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرے۔ یہ موضوع اس قسم کے مسائل میں سے ہے کہ بہت سے طالب علموں کو ان کا علم نہیں ہے، اور کچھ کے پاس صرف نظری حد تک کچھ علم ہے۔ تو انسان کو لوگوں کے حالات اور ان کے نتائج دیکھ بھال کر ہی کوئی حکم لگانا چاہئے۔

حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بعض اوقات لوگوں کو کسی مباح چیز سے بھی منع فرما دیا کرتے تھے، اس لیے کہ اس منع میں ان کی مصلحت ہوتی تھی۔ مثلا مسئلہ طلاق میں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم، ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور خلافت عمر رضی اللہ عنہ کے ابتدائی دو سالوں میں تین طلاقیں ایک ہی شمار کی جاتی تھیں، یعنی ایک جملہ میں تین طلاقیں، یا بقول امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ پے درپے تین جملوں میں کہی گئی طلاقیں ایک شمار کی جاتی تھیں۔ مگر جب لوگوں میں یہ عادت بہت بڑھ گئی تو جناب عمر رضی اللہ عنہ نے کہا؛ لوگ اپنے اس طلاق کے معاملے میں، جس میں انہیں اعتدال اور ٹھہراؤ اختیار کرنا چاہئے تھا، جلدی کرنے لگے ہیں تو اگر ہم ان کی کہی ہوئی طلاقیں ان پر نافذ کر دیں تو (تو شاید یہ لوگ باز آ جائیں اور سمجھ جائیں)۔ چنانچہ انہوں نے اسے ان پر نافذ کر ہی دیا اور مذکورہ صورت میں بیویوں کی طرف رجوع کرنا منع کر دیا۔ ([1]) کیونکہ اس بارے میں اس طرح سے جلدی کرنا حرام تھا۔

اور اسی طرح اس مسئلہ میں میں کہتا ہوں کہ بالفرض اگر چہرہ ننگا رکھنا جائز ہو بھی تو امانت علمی اور مصلحت عامہ کا تقاضا یہ ہے کہ اسے ناجائز بتایا جائے، کیونکہ یہ دور ایسا ہے کہ اس میں فتنے بڑھ گئے ہیں، اور یہ منع "تحریم وسائل" کے اصول پر ہو گی۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ قرآن و حدیث کے دلائل کی روشنی میں چہرہ ننگا رکھنا اصلا حرام ہی ہے (جسے کہ "تحریم المقاصد" کہا جاتا ہے) اور چہرے کو ننگا رکھنے کی حرمت قدموں یا پنڈلیوں کو ننگا رکھنے کی نسبت کہیں بڑھ کر ہے۔


[1] حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ایک موقع کی تین طلاقوں کو نافذ کردیا۔دیکھئےتفصیل:صحیح مسلم،کتاب الطلاق،باب طلاق الثلاث،حدیث:1472۔مسند احمد بن حنبل:2877/1۔

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

احکام و مسائل، خواتین کا انسائیکلوپیڈیا

صفحہ نمبر 633

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ