سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(899) چہرے کے پردے کی اہمیت

  • 18506
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 2154

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

براہ مہربانی عورت کے لیے بالخصوص چہرے کے پردے کی اہمیت واضح فرمائیں۔ کیا شرع اسلامی کی رُو سے پردہ واجب ہے؟ اس کی دلیل کیا ہے؟ میں نے بہت سے لوگوں سے سنا ہے اور میرا اپنا خیال بھی یہ ہے کہ جزیرۃ العرب میں ترکوں کے دور سے اس کا استعمال عام ہوا ہے، اور اسی دور سے اس بارے میں شدت کی جانے لگی ہے حتیٰ کہ بہت سے لوگ اسے تمام عورتوں پر فرض سمجھتے ہیں، حالانکہ ہم نے پڑھا ہے کہ دور نبوت اور خلفائے راشدین کے زمانے میں عورتیں مردوں کے ساتھ بہت سے کاموں میں شریک ہوا کرتی تھیں مثلا جنگوں میں بالخصوص۔ تو کیا ان باتوں کی کوئی اصلیت ہے یا یہ سراسر غلط ہیں؟ مجھے آپ کے جواب کا انتظار رہے گا تاکہ حق سمجھ سکوں اور غلط سے باز رہوں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

پردہ ابتدائے اسلام میں عورت پر فرض نہیں تھا اور وہ اپنا چہرہ اور ہاتھ مردوں کے سامنے ظاہر کر لیا کرتی تھی۔ بعد میں اللہ نے اسے مشروع فرمایا اور عورتوں کے لیے واجب قرار دیا تاکہ یہ اجنبی مردوں کی نظروں سے محفوظ رہے اور فتنے کا دروازہ بند ہو، اور یہ سورہ احزاب میں نازل ہونے والی آیات کے بعد ہوا ہے۔ فرمایا:

﴿وَإِذا سَأَلتُموهُنَّ مَتـٰعًا فَسـَٔلوهُنَّ مِن وَراءِ حِجابٍ ذ‌ٰلِكُم أَطهَرُ لِقُلوبِكُم وَقُلوبِهِنَّ ... ﴿٥٣﴾... سورة الاحزاب

’’اور جب تم ان عورتوں سے کچھ ضرورت کی چیز مانگنا تو پردے کے پیچھے سے طلب کیا کرو، یہ تمہارے اور ان کے دلوں کے لیے زیادہ پاکیزگی کا باعث ہے۔‘‘

یہ آیت کریمہ اگرچہ ازواج نبی کے متعلق ہے مگر اس میں ان کے علاوہ دیگر عورتیں بھی شامل ہیں، کیونکہ وہ علت اور سبب جو اس میں بیان ہوا ہے وہ عام ہے، جیسے کہ اسی طرح کا ایک دوسرا حکم اسی سورہ میں آیا ہے:

﴿وَقَرنَ فى بُيوتِكُنَّ وَلا تَبَرَّجنَ تَبَرُّجَ الجـٰهِلِيَّةِ الأولىٰ وَأَقِمنَ الصَّلو‌ٰةَ وَءاتينَ الزَّكو‌ٰةَ وَأَطِعنَ اللَّهَ وَرَسولَهُ...﴿٣٣﴾... سورة الاحزاب

’’اور اپنے گھروں میں ٹکی رہو اور سابقہ جاہلیت کے سے انداز میں اپنی زینت کا اظہار نہ کرتی پھرو، نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دو  اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت اپناؤ۔‘‘

اسی طرح کا ایک اور حکم بھی ہے جو اسی سورہ احزاب میں ہے:

﴿يـٰأَيُّهَا النَّبِىُّ قُل لِأَزو‌ٰجِكَ وَبَناتِكَ وَنِساءِ المُؤمِنينَ يُدنينَ عَلَيهِنَّ مِن جَلـٰبيبِهِنَّ ذ‌ٰلِكَ أَدنىٰ أَن يُعرَفنَ فَلا يُؤذَينَ وَكانَ اللَّهُ غَفورًا رَحيمًا ﴿٥٩﴾... سورة الاحزاب

’’اے نبی! اپنی بیویوں، بیٹیوں اور مومنوں کی عورتوں سے کہہ دیجیے کہ اپنے اوپر پردے کی چادریں اوڑھے رکھا کریں۔ یہ بات زیادہ قریب ہے اس کے کہ وہ پہچانی جائیں گی اور انہیں کوئی اذیت نہیں دی جائے گی، اور اللہ تعالیٰ بہت بخشنے والا رحم کرنے والا ہے۔‘‘

علاوہ ازیں اسی موضوع کی دو آیتیں اور ہیں جو سورہ نور میں آئی ہیں:

﴿وَقُل لِلمُؤمِنـٰتِ يَغضُضنَ مِن أَبصـٰرِهِنَّ وَيَحفَظنَ فُروجَهُنَّ وَلا يُبدينَ زينَتَهُنَّ إِلّا ما ظَهَرَ مِنها وَليَضرِبنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلىٰ جُيوبِهِنَّ وَلا يُبدينَ زينَتَهُنَّ إِلّا لِبُعولَتِهِنَّ أَو ءابائِهِنَّ أَو ءاباءِ بُعولَتِهِنَّ ...﴿٣١﴾... سورة النور

’’اور مومن عورتوں سے کہہ دیجئے کہ اپنی نظریں جھکا کے رکھا کریں، اپنی عصمتوں کی حفاظت کریں اور اپنی زینتوں کو ظاہر نہ کیا کریں سوائے اس کے جو از خود ظاہر ہو، اور چاہئے کہ اپنی اوڑھنیاں اپنے دامنوں پر اوڑھے رکھا کریں اور اپنی زینت اپنے شوہروں، اپنے باپوں یا شوہروں کے باپوں ۔۔۔ کے علاوہ کسی اور کے سامنے ظاہر نہ کیا کریں۔‘‘

﴿وَالقَو‌ٰعِدُ مِنَ النِّساءِ الّـٰتى لا يَرجونَ نِكاحًا فَلَيسَ عَلَيهِنَّ جُناحٌ أَن يَضَعنَ ثِيابَهُنَّ غَيرَ مُتَبَرِّجـٰتٍ بِزينَةٍ وَأَن يَستَعفِفنَ خَيرٌ لَهُنَّ ...﴿٦٠﴾... سورةالنور

’’اور بیٹھ رہنے والی عورتیں، جنہیں نکاح کی کوئی امید (رغبت) نہیں ہے، ان پر کوئی گناہ نہیں کہ اپنے کپڑے اتار بھی دیا کریں، اس طرح کہ اپنی زینت کو نمایاں کرنے والی نہ ہوں، اور اگر وہ اس سے بھی پرہیز کریں تو یہ ن کے لیے بہت بہتر ہے۔‘‘

اس آیت کریمہ میں عورتوں کے لیے پردے کا وجوب اور یہ کہ وہ غیر محرم مردوں سے چہرے اور جسم بھی چھپائیں، اس طرح سے ہے کہ بڑی عمر کی بیٹھ رہنے والی عورتوں سے جنہیں نکاح کی کوئی رغبت نہیں، گناہ اٹھا لیا گیا ہے، بشرطیکہ وہ اپنی زینت نمایاں نہ کریں۔ اس سے معلوم ہوا کہ جو ان عورتوں کے لیے پردہ واجب ہے۔ اگر وہ پردہ نہیں کریں گی تو ان پر گناہ ہو گا۔ جیسے کہ بڑی عمر کی بوڑھی عورتیں اگر زینت ظاہر کرنے والی ہوں تو ان پر گناہ ہے، اور انہیں حکم ہے کہ پردہ کریں، کیونکہ اس طرح وہ فتنے کا باعث ہوں گی۔ اس کے باوجود آیت کے آخر میں فرمایا کہ اگر یہ (بڑی عمر کی) عورتیں اس (بے پردگی) سے پرہیز کریں تو بہت بہتر ہے۔ اور یہ تعلیم سی لیے ہے کہ پردہ بہر صورت ان کے لیے فتنے سے تحفظ کا باعث ہے۔ اور سیدہ عائشہ اور ان کی ہمشیرہ سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا کے متعلق جو آیا  ہے وہ اس بات کی دلیل ہے کہ عورت غیر محرموں سے اپنا چہرہ چھپائے، خواہ وہ حج میں احرام کی حالت ہی کیوں نہ ہو۔

اور یہ ثابت ہے کہ ابتدائے اسلام میں عورتیں اپنا چہرہ کھلا رکھتی تھیں، جیسے آیت حجاب سے منسوخ کر دیا گیا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خواتین کا پردہ کرنا قدیم دور یعنی دور نبوت سے ثابت ہے، جو اللہ عزوجل نے فرض فرمایا ہے، نہ کہ ترکوں کی عادت تھی۔

اور یہ جو کہا جاتا ہے کہ عورتیں دور نبوت میں بہت سے کاموں میں مردوں کے ساتھ شریک ہوا کرتی تھیں، مثلا بیماروں کا علاج یا جہاد میں مجاہدین کو پانی پلانا وغیرہ، یہ بالکل صحیح ہے، پردہ کر کے یہ کام ہو سکتے ہیں اور عفت کے ساتھ اور شک و شبہ والی کیفیت سے بچ کر یہ اعمال سر انجام دیے جا سکتے ہیں۔ سیدہ ام سلیم رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جہاد کے سفروں میں جایا کرتے تھے، ہم پانی بھرتے، پانی پلاتے اور بیماروں کا علاج معالجہ کیا کرتے تھے۔

یقینا وہ یہ اعمال سر انجام دیتی تھیں، مگر اس طرح اور اس انداز سے نہیں جو آج اختیار کر لیے گئے ہیں، اس کے باوجود یہ لوگ اسلام کے دعویدار ہیں۔ ان کی عورتیں مردوں کے ساتھ بے محابا اختلاط کرتی ہیں، اپنی زینت کا کام آزادانہ اظہار کرتی ہیں، جس کا نتیجہ فواحش و منکرات کے عام ہونے کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ خاندان ٹوٹنے لگے ہیں اور شر و فساد معاشرے میں عام ہو گیا ہے۔ ولا حول ولا قوة الا بالله ۔ ہم اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ سب کو اپنی سیدھی راہ کی ہدایت دے اور ہمیں اور آپ بلکہ سب بھائیوں کو علم نافع اور اس پر عمل کی توفیق دے، اور وہی سب سے بڑھ کر بہترین ذات ہے جس سے سوال کیا جا سکتا ہے۔

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

احکام و مسائل، خواتین کا انسائیکلوپیڈیا

صفحہ نمبر 630

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ