سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(890) لڑکے اور لڑکی کا کسی دوسری عورت کا دودھ پینے سے رضاعت کا ثابت ہونا

  • 18497
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-07
  • مشاہدات : 1341

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک شخص کی ایک رشتہ دار خاتون ہے۔ اس شخص اور خاتون کے چھوٹے بہن بھائیوں نے ایک عورت کا دودھ پیا ہے سوائے ان دونوں کے۔ کیا اس شخص کے لیے جائز ہے کہ اپنی اس رشتہ دار خاتون سے شادی کر لے؟ اور اگر ان کی شادی ہو گئی ہو اور ان کا بچہ بھی ہو تو اب ان کا کیا حکم ہو گا؟ اور علماء ان کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جب اس شخص نے اپنی اس رشتہ دار خاتون کی ماں کا اور اس عورت نے اس شخص کی ماں کا دودھ نہیں پیا ہے، بلکہ اس شخص کے دوسرے بھائیوں نے اس عورت کی ماں کا اور اس عورت کے بھائیوں نے اس شخص کی ماں کا دودھ پیا ہو، تو یہ عورت اس شخص کے لیے حلال ہے۔ اس پر مسلمانوں کا اتفاق ہے۔ کیونکہ رضاعت کی حرمت ہمیشہ دودھ پینے والے اور اس کی اولاد کی طرف اور دودھ پلانے والی اور اس کے شوہر کی طرف منتقل اور مؤثر ہوتی ہے۔ شوہر بھی وہ جس کے ملاپ سے وہ عورت دودھ والی ہوئی ہو۔ چنانچہ دودھ پلانے والی (اس شوہر کی بیوی) اس پینے والے بچے کے نسبی بھائی، اور اس کا نسبی باپ، اس لڑکے کے رضاعی ماں باپ اور رضاعی بہن بھائیوں کے لیے اجنبی ہی ہوں گے۔

اور اس پر سب مسلمانوں کا اتفاق ہے کہ دودھ کی حرمت (پلانے والی کے) شوہر کی طرف مؤثر اور منتقل ہوتی ہے اور اسے کتب فقہ میں "مسالہ الفحل" یا "لبن الفحل" سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اور جو ہم نے اوپر ذکر کیا ہے وہ ائمہ اربعہ اور جمہور صحابہ و تابعین کا مذہب ہے۔ اگرچہ بعض سلف "لبن الفحل" کی حرمت کے قائل نہیں تھے مگر صحیح احادیث جمہور ہی کے مذہب کی تائید کرتی ہیں۔

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

احکام و مسائل، خواتین کا انسائیکلوپیڈیا

صفحہ نمبر 626

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ