سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(888) دو بہنوں کا آپس میں ایک دوسرے کے بچوں کو دودھ پلانا

  • 18495
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-07
  • مشاہدات : 780

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

دو بہنیں ہیں، دونوں کے بیٹے بیٹیاں ہیں، اور ہر ایک نے دوسری کی بیٹیوں کو دودھ پلایا ہے۔ کیا یہ لڑکیاں لڑکوں کے لیے حرام ہوں گی یا نہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جب کسی عورت نے کسی لڑکی کو اس کی عمر کے دو سال کے اندر اندر پانچ رضعات دودھ پلایا ہو تو وہ اس کی بیٹی بن جائے گی، اور پلانے والی کی ساری اولاد پینے والی کے رضاعی بہن بھائی بن جائیں گے، خواہوہ رضاعت سے پہلے پیدا ہوئے ہوں یا بعد میں۔ پلانے والی کے کسی لڑکے کے لیے جائز نہیں ہو گا کہ پینے والی لڑکی سے شادی کر سکیں (کیونکہ وہ ان کی رضاعی بہن ہو گی)۔

بلکہ پینے والی کے بھائیوں کے لیے جائز ہو گا کہ وہ پلانے والی کی دوسری لڑکیوں سے شادی کر سکتے ہیں (جنہوں نے ان لڑکوں کی ماں کا دودھ نہ پیا ہو)۔ دوسرے لفظوں میں لڑکے اپنی رضاعی بہن کی دوسری بہنوں سے شادی کر سکتے ہیں، بشرطیکہ انہوں نے ان کی ماں کا دودھ نہ پیا ہو، اور ان لڑکیوں نے بھی ان لڑکوں کی ماں کا دودھ نہ پیا ہو۔

الغرض پینے والی، پلانے والی کے کسی لڑکے سے شادی نہیں کر سکتی۔ اور اس پر ائمہ کا اتفاق ہے۔ اس مسئلہ کی بنیاد یہ ہے کہ دودھ پلانے والی پینے والی کی ماں بن جاتی ہے، تو اس پینے والی پر، پلانے والی کی ساری اولاد حرام ہو جاتی ہے۔ عورت کے تمام بھائی پینے والی کے رضاعی ماموں، عورت کی تمام بہنیں، پینے والی کی رضاعی خالائیں بن جائیں گی۔ اور پلانے والی کا شوہر، جس کی طرف اس کا دودھ منسوب ہے، پینے والی کا رضاعی باپ کہلائے گا، اور اس مرد کی ساری اولاد، اس پلانے والی سے ہو یا دوسری بیویوں سے، اس پینے والی کے (رضاعی) بہن بھائی بن جائیں گے اور اس رضاعی باپ کے بھائی اس پینے والی کے چچا اور اس کی بہنیں اس کی پھوپھیاں کہلائیں گی۔ اور پینے والی کی اولاد، اور آگے اس کی اولاد کی اولاد بھی، پلانے والی کی اور اس کے شوہر کی، جس کی طرف اس کا دودھ منسوب ہے، رضاعی اولاد کہلائیں گے۔البتہ پینے والی کے نسبی بہن بھائی اور اس کے ماں باپ وہ اجانب ہی رہیں گے، اس رضاعت کی وجہ سے ان کے لیے کوئی حرام نہیں ہو گا۔ اس پر ائمہ اربعہ کا اتفاق ہے۔ اگرچہ بعض دوسری جزئیات میں کچھ اختلاف ہے۔

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

احکام و مسائل، خواتین کا انسائیکلوپیڈیا

صفحہ نمبر 625

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ