سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(885) رضاعت كا مسئلہ

  • 18492
  • تاریخ اشاعت : 2024-06-19
  • مشاہدات : 890

سوال

(885) رضاعت كا مسئلہ

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میرے والد اور چچا دو بھائی ہیں۔ میرے والد کے ہاں لڑکے اور چچا کے ہاں لڑکیاں ہیں۔ ایک مدت کے بعد میرے والد اور چچا کی والدہ فوت ہو گئی تو میرے دادا نے ایک اور عورت سے شادی کر لی۔ اس نے سات ماہ بعد ایک بچے کو جنم دیا مگر وہ جلد ہی فوت ہو گیا۔ پھر چالیس دنوں کے بعد میری والدہ نے ایک بچے کو جنم دیا، تو میرے دادا کی نئی بیوی اٹھی (اور اس نے مجھے دودھ پلایا)۔ میری والدہ کہتی ہیں کہ میں نے آٹھ بار دودھ پلایا مگر تو سیراب نہیں ہوا، کیونکہ میں اس وقت ایک سال اور آٹھ ماہ کا تھا۔ یہ فرمائیے کہ آیا میرے لیے جائز ہے کہ میں اپنے چچا کی بیٹیوں میں سے کسی کے ساتھ شادی کر سکوں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

"رضاعت" جس سے حرمت ثابت ہوتی ہے وہ ہے جو پانچ یا زیادہ بار ہو اور ابتدائی دو سال کے اندر اندر ہو اور "ایک بار" دودھ پینا جسے رضعہ کہتے ہیں وہ یوں ہے کہ بچہ ماں کی چھاتی اپنے منہ میں لے کر اس سے دودھ چوسنے لگے، پھر اپنی مرضی سے چھوڑے، تو یہ ایک بار اور ایک رضعہ ہے۔ اگر دوبارہ منہ میں لے کر چوسنے لگے تو یہ دوسری بار شمار ہو گی۔ لہذا آپ کے لیے جائز نہیں ہے کہ اپنے چچا کی کسی بیٹی سے شادی کر سکیں۔ کیونکہ جب آپ نے اپنے دادا کی بیوی کا دودھ پیا ہے تو ان لڑکیوں کے رضاعی چچا بن گئے ہو۔ اور اللہ عزوجل کا فرمان ہے:

﴿حُرِّمَت عَلَيكُم أُمَّهـٰتُكُم وَبَناتُكُم وَأَخَو‌ٰتُكُم وَعَمّـٰتُكُم وَخـٰلـٰتُكُم وَبَناتُ الأَخِ وَبَناتُ الأُختِ وَأُمَّهـٰتُكُمُ الّـٰتى أَرضَعنَكُم وَأَخَو‌ٰتُكُم مِنَ الرَّضـٰعَةِ...﴿٢٣﴾... سورة النساء

’’تم پر حرام ہیں تمہاری مائیں ۔۔۔ الی ۔۔۔ اور تمہاری دودھ کی بہنیں۔‘‘

اور فرمایا:

﴿وَالو‌ٰلِد‌ٰتُ يُرضِعنَ أَولـٰدَهُنَّ حَولَينِ كامِلَينِ لِمَن أَرادَ أَن يُتِمَّ الرَّضاعَةَ...﴿٢٣٣﴾... سورةالبقرة

’’اور جو چاہے کہ اس کا بچہ پورا دودھ پئے تو مائیں اپنے بچوں کو پورے دو سال دودھ پلائیں۔‘‘

اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:

تحرم الرضاعة ما تحرم الولادة

"رضاعت وہ تمام رشتے حرام کر دیتی ہے جو ولادت (نسب) سے حرام ہوتے ہیں۔" ([1])

اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ’’ابتدا میں جو قرآن نازل ہوا اس کے مطابق دس معلوم رضعات سے حرمت ثابت ہوتی تھی، پھر انہیں منسوخ کر کے پانچ معلوم رضعات کر دیا گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو معاملہ اسی طرح تھا۔‘‘ (صحیح مسلم،کتاب الرضاع،باب التحریم بخمس رضعات،حدیث:1452وسنن الترمذی،کتاب الرضاع،باب ماجاءلاتحرم المصۃولاالمصتان،ھدیث:1150وسنن النسائی،کتاب النکاح،باب القدر الذی یحرم الرضاعة،حدیث:3307۔)


[1] یہ حدیث جن الفاظ سے فتویٰ کے جواب میں یہاں ذکر کی گئی ہے بعینہ الفاظ تو مجھے نہیں ملے،البتہ یہ حدیث مختلف الفاظ کے ساتھ مروی ہے۔دیکھیے:صحیح بخاری،کتاب الشھادات،باب الشھادۃعلی الانساب والرضاع،حدیث:2646کتاب فرض الخمس،باب ماجاءفی بیوت ازواج النبی ﷺومانسب من البیوت الیھن،حدیث:3105وصحیح مسلم،کتاب الرضاع،باب یحرم من الرضاع مایحرم من الولادۃ،حدیث:1444وسنن النسائی،کتاب النکاح،باب مایحرم من الرضاع،حدیث:3305وسنن الترمذی،ابواب الرضاع،باب ماجاءیحرم من الرضاع مایحرم من النسب،حدیث:1147۔

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

احکام و مسائل، خواتین کا انسائیکلوپیڈیا

صفحہ نمبر 621

محدث فتویٰ

تبصرے