سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(884) پانچ دن دودھ پلانے سے رضاعت ثابت ہو جاتی ہے؟

  • 18491
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 877

سوال

(884) پانچ دن دودھ پلانے سے رضاعت ثابت ہو جاتی ہے؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میں نے اپنی بیٹی کی نسبت اپنے بھتیجے سے طے کی ہے۔ مگر اس نسبت کے بعد ہمیں یقینی طور پر معلوم ہوا ہے کہ اس لڑکے کے والد کی بیوی نے میری بیٹی کو پانچ دن تک دودھ پلایا ہے۔ اور یقینی طور پر ثابت ہے کہ چار دن تک متواتر پلاتی رہی ہے۔ خیال رہے کہ دودھ پلانے والی اس لڑکے کی حقیقی ماں نہیں، بلکہ اس کے والد کی بیوی ہے۔ کیا یہ لڑکی اس لڑکے کےلیے حلال ہو سکتی ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جب معلوم ہو چکا ہے کہ اس لڑکی نے اپنے منگیتر کے باپ کی بیوی کا دودھ پیا ہے، اور یہ دودھ اس کے باپ ہی کی طرف منسوب ہے، اور دودھ پینا بھی پانچ بار اور دو سال کی عمر کے دوران میں ثابت ہے، تو یہ لڑکی اس لڑکے کی رضاعی بہن بن گئی، لہذا ان کا نکاح جائز نہیں ہو سکتا ہے۔ اللہ عزوجل کا فرمان ہے:

﴿حُرِّمَت عَلَيكُم أُمَّهـٰتُكُم وَبَناتُكُم وَأَخَو‌ٰتُكُم وَعَمّـٰتُكُم وَخـٰلـٰتُكُم وَبَناتُ الأَخِ وَبَناتُ الأُختِ وَأُمَّهـٰتُكُمُ الّـٰتى أَرضَعنَكُم وَأَخَو‌ٰتُكُم مِنَ الرَّضـٰعَةِ...﴿٢٣﴾... سورةالنساء

’’تم پر تمہاری مائیں حرام ہے ۔۔ اور تمہاری رضاعی بہنیں ۔۔۔ بھی۔‘‘

اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت ہے کہ ’’ابتدا میں قرآن کریم میں دس معلوم رضعات کا حکم نازل ہوا تھا جو حرمت کا باعث بنتی تھیں، مگر بعد میں انہیں منسوخ کر کے پانچ معلوم رضعات سے بدل دیا گیا۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو معاملہ اسی پر تھا۔‘‘ (صحیح مسلم،کتاب الرضاع،باب التحریم بخمس رضعات،حدیث وسنن الترمذی،کتاب الرضاع،باب ماجاءلاتحرم المصةولاالمصتان،حدیث:1150وسنن النسائی،کتاب النکاح،باب القدر الذی یحرم الرضاعة،حدیث:3307۔)

اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿وَالو‌ٰلِد‌ٰتُ يُرضِعنَ أَولـٰدَهُنَّ حَولَينِ كامِلَينِ لِمَن أَرادَ أَن يُتِمَّ الرَّضاعَةَ...﴿٢٣٣﴾... سورةالبقرة

’’اور مائیں اپنے بچوں کو پورے دو سال دودھ پلائیں۔‘‘

اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان بھی ہے کہ:

لا رضاع الا ما فتق الا معاء وكان قبل الفطام

’’یعنی حرمت اسی رضاعت سے ثابت ہوتی ہے جو آنتوں کو پھاڑے، اور دودھ چھڑانے کی مدت سے پہلے ہو۔‘‘(سنن الترمذی،کتاب الرضاع،باب ماجاءان الرضاعةلاتحرم الافی الصغر دون الحولین،حدیث:1152۔مصنف ابن ابی شیبة:550/3،حدیث:17057۔)

اور شریعت میں رضاعت اور رضعہ سے مراد یہ ہے کہ بچہ ماں کی چھاتی اپنے منہ میں لے کر دودھ چوسنا شروع کر دے، اور پھر چوستا رہے، حتیٰ کہ اپنی مرضی سے چھوڑے، خواہ سانس لینے کے لیے ہو یا ایک جانب سے دوسری جانب کے لیے وغیرہ۔ اگر دوبارہ اپنے منہ میں لے کر پئے تو یہ دوسری رضعہ اور دوسری بار ہو گی، اگرچہ اسی قریبی وقت میں ایسے کرے۔

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

احکام و مسائل، خواتین کا انسائیکلوپیڈیا

صفحہ نمبر 620

محدث فتویٰ

تبصرے