سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(393) 15شعبان کے روزے کی قضائی

  • 1849
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-24
  • مشاہدات : 1670

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

۱۵ شعبان کو روزہ رکھنا چاہیے اگر کسی وجہ سے ۱۵ شعبان کو روزہ نہ رکھے تو رمضان کے بعد اس کے بدلے دو روزے رکھے ۔ حدیث :

«قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ ﷺ لِرَجُلٍ اَمَا صُمْتَ سَرَرَ هٰذَا الشَّهْرِ(1) وفی رواية أَصُمْتَ مِنْ سَرَرِ شَعْبَانَ (2) وَفِیْ رِوَايَةٍ أَصُمْتَ مِنْ سُرَّةِ هٰذَا الشَّهْرِ فَإِذَا اَفْطَرْتَ فَصُمْ يَوْمَيْنِ وَفِیْ رِوَايَةٍ فَاِذَا اَفْطَرْتَ مِنْ رَمَضَانَ فَصُمْ يَوْمَيْنِ مَکَانَه» (3)

’’رسول اللہﷺ نے ایک آدمی کو کہا کیا تم نے اس ماہ کے سَرَرَ  میں روزہ نہیں رکھا اور ایک روایت میں ہے کیا تو نے شعبان کے سَرَرَ میں روزہ نہیں رکھا  اور ایک روایت میں ہے کیا تو نے اس ماہ کے سُرَّۃ  میں روزہ رکھا ہے پس جب تو افطار کرے تو دو روزے رکھ اور ایک روایت میں ہے پس جب تو افطار کرے رمضان سے پس تو اس کی جگہ دو روزے رکھ‘‘؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

حدیث : «اَمَا صُمْتَ سَرَرَ هٰذَا الشَّهْرِ» الخ میں محفوظ لفظ ’’سَرَرَ‘‘ ہے یا ’’   سَرَارَ‘‘ نہ کہ لفظ ’’سُرَّة‘‘ اگر لفظ ’’سُرَّة‘‘ محفوظ ہو بھی تو اس سے مراد آخر ہے نہ کہ وسط چنانچہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالیٰ نے فتح الباری میں ’’سَرَرَ‘‘ کے معانی بیان کرتے ہوئے لکھا ہے

«قَالَ أَبُوْ عُبَيْدٍ وَالْجُمْهُوْرُ : اَلْمُرَادُ بِالسَّرَرِ هُنَا آخِرُ الشَّهْرِ سُمِّيَتْ بِذٰلِکَ لِاِسْتِسْرَارِ الْقَمَرِ فِيْهَا وَهِیَ لَيْلَةُ ثَمَانٍ وَعِشْرِيْنَ وَتِسْعٍ وَعِشْرِيْنَ وَثَلاَثِيْنَ ۔ وَنَقَلَ أَبُوْدَاودَ عَنِ الْاَوْزَاعِیْ وَسَعِيْدِ بْنِ عَبْدِالْعَزِيْزِ أَنَّ سَرَرَه أَوَّلُه ، وَنَقَلَ الْخَطَابِیُ عَنِ الْاَوْزَاعِیْ کَالْجُمْهُوْرِ ۔ وَقِيْلَ السَّرَرُ وَسَطُ الشَّهْرِ حَکَاهُ اَبُوْدَاوُدَ أَيْضًا، وَرَحَّجَهُ بَعْضُهُمْ وَوَجْهُهُ بِأَنَّ السَرَرَ جَمْعُ سُرَّةٍ وَسُرَّةُ الشَّيْئِ وَسَطُهُ وَيُؤَيِّدُهُ النَّدْبُ إِلی صِيَامِ الْبِيْضِ وَهِیَ وَسَطُ الشَّهْرِ وَأَنَّه لَمْ يَرِدْ فِی صِيَامِ آخِرِ الشَّهْرِ نَدْبٌ بَلْ وَرَدَ فِيْهِ نَهْیٌ خَاصٌ وَهُوَ آخِرُ شَعْبَانَ لِمَنْ صَامَهُ لِأَجْلِ رَمَضَانَ وَرَجَّحَهُ النَوَوِیْ بِأَنَّ مُسْلِمًا أَفَرَدَ الرِوَايَةَ الَّتِیْ فِيْهَا سُرَّةُ هٰذَا الشَّهْرِ عَنْ بَقِيَّةِ الرِوَايَاتِ وَأَرْدَفَ بِهَا الرِوَايَاتِ الَّتِیْ فِيْهَا الْحَضُّ عَلٰی صِيَامِ الْبِيْضِ وَهِیَ وَسَطُ الشَّهْرِ کَمَا تَقَدَّمَ لٰکِنْ لَمْ أَرَهُ فِیْ جَمِيْعِ طُرُقِ الْحَدِيْثِ بِاللَّفْظِ الَّذِیْ ذَکَرَهُ وَهُوَ سُرَّةٌ بَلْ هُوَ عِنْدَ اَحْمَدَ مِنْ وَجْهَيْنِ بِلَفْظِ سَرَارٍ وَأَخْرَجَهُ مِنْ طُرُقٍ عَنْ سُلَيْمَانَ التَّيْمِیْ فِیْ بَعْضِهَا سَرَرٌ وَفِیْ بَعْضِهَا سَرَارٌ ، وَهٰذَا يَدُلُّ عَلٰی أَنَّ الْمُرَادَ آخِرُ الشَّهْرِ»  الخ

’’کیا تم نے اس ماہ کے آخر میں روزہ نہیں رکھا الخ میں محفوظ لفظ سرر ہے یا سرار نہ کہ لفظ سرۃ ۔ اگر لفظ سرۃ محفوظ ہو بھی تو اس سے مراد آخر ہے نہ کہ وسط چنانچہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالیٰ نے فتح الباری میں لفظ سرر کے معانی بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ابو عبید اور جمہور نے کہا ہے سرر سے یہاں ماہ کا آخر مراد ہے اور اس کے ساتھ نام رکھا گیا ہے اس میں چاند کے پوشیدہ ہونے کی وجہ سے اور وہ اٹھائیسویں اور انتیسویں اور تیسویں رات ہے اور ابوداود نے اوزاعی اور سعید بن عبدالعزیز سے نقل کیا ہے کہ سرر کا معنی اول ہے اور خطابی نے اوزاعی سے جمہور کی طرح نقل کیا ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ سرر کا معنی درمیان ہے اس کو بھی ابوداود نے حکایت کیا اور بعض نے اس کو ترجیح دی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ سرر جمع سرۃ کی ہے اور سرۃ درمیان کو کہتے  ہیں اور ایام بیض کے روزوں کا مندوب ہونا اس کی تائید کرتا ہے اور وہ ماہ کا درمیان ہے اور ماہ کے آخر کے بارے کوئی ندب وارد نہیں ہوا بلکہ اس میں خاص نہی وارد ہوئی ہے اور وہ شعبان کا آخر ہے جو رمضان کی وجہ سے اس کے روزے رکھے اور امام نووی نے اس کو ترجیح دی ہے کیونکہ امام مسلم نے اس روایت کو علیحدہ بیان کیا ہے جس میں اس ماہ کے سرۃ کا لفظ ہے باقی روایات سے اور اس کے بعد وہ روایات لائے ہیں جن میں ایام بیض کے روزوں کی ترغیب ہے اور وہ ماہ کا درمیان ہے جیسا کہ گذر چکا لیکن حدیث کے تمام طرق میں میں نے اس لفظ کو نہیں دیکھا جس لفظ سے اس نے ذکر کیا ہے اور وہ سرۃ ہے بلکہ وہ احمد کے پاس دووجہوں سے لفظ سرار کے ساتھ ہے اور اس نے کئی طرق سے سلیمان التیمی سے بیان کیا ہے بعض میں سرر ہے اور بعض میں سرار اور یہ دلالت کرتا ہے کہ اس سے مراد ماہ کا آخر ہے ‘‘

اور امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث پر باب منعقد فرمایا ہے بَابُ الصَّوْمِ فِیْ آخِرِ الشَّہْرِ جس سے پتہ چلتا ہے کہ امام بخاری بھی سرر کا معنی آخر ہی کرتے ہیں نہ کہ وسط یا اول پھر بخاری کی تبویب سے واضح ہے کہ وہ شعبان کی تخصیص کے بھی قائل نہیں یاد رہے پندرھویں شعبان کے متعلق روایت ’’قُوْمُوْا لَیْلَہَا وَصُوْمُوْا نَہَارَہَا‘‘ ’’رات کو قیام کرو اور دن کو روزہ رکھو‘‘ کمزور ہے۔

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب


(1)بخاری کتاب الصوم۔باب الصوم من آخرالشہر

(2)مسلم۔کتاب الصوم۔باب صوم سرر شعبان

(3)صحیح مسلم۔کتاب الصیام۔باب صوم سرر شعبان

احکام و مسائل

روزوں کے مسائل ج1ص 282

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ