سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(875) رضاعی باپ کی دوسری بیوی رضاعی بیٹے کے لیے محرم ہوتی ہے؟

  • 18482
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-02
  • مشاہدات : 1299

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا رضاعی باپ کی دوسری بیوی رضاعی بیٹے کے لیے محرم ہوتی ہے یا نہیں جبکہ بچے نے اس دوسری کا دودھ نہ پیا ہو، بلکہ پہلی سے پیا ہو؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس مسئلہ میں اہل علم کا اختلاف ہے۔ اکثر علماء بشمول ائمہ اربعہ رحمہم اللہ کہتے ہیں کہ رضاعی باپ کی بیوی ایسے ہی ہے جیسے کہ نسبی باپ کی بیوی، اور سبھی جانتے ہیں کہ نسبی باپ کی بیوی بیٹے کے لیے محرم ہوا کرتی ہے۔ مثلا اگر ایک آدمی شادی کرے اور پہلی بیوی سے اولاد ہو تو یہ دوسری بیوی ان بچوں کے لیے محرم ہو گی۔ کیونکہ اللہ عزوجل کا فرمان ہے:

﴿وَلا تَنكِحوا ما نَكَحَ ءاباؤُكُم مِنَ النِّساءِ ... ﴿٢٢﴾... سورةالنساء

’’اور مت نکاح کرو ان عورتوں سے جن سے تمہارے باپوں نے نکاح کیا ہو۔‘‘

جبکہ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اس طرف گئے ہیں کہ رضاعی باپ کی دوسری بیوی، نسبی باپ کی دوسری بیوی کی مانند نہیں ہے، یعنی رضاعی بیٹے کے لیے محرم نہیں ہے۔ اور جسے اس مسئلہ کی تفصیل مطلوب ہو اسے امام ابن القیم رحمہ اللہ کی "زاد المعاد" دیکھنی چاہئے۔ وہاں یہ مسئلہ بڑی تفصیل اور تحقیق سے بیان کیا گیا ہے، اور شیخ الاسلام کے مذہب کی تقویت بھی جانچی جا سکتی ہے۔

اور اگر کوئی درمیانی راہ اختیار کرے یعنی یہ کہے کہ بقول جمہور رضاعی بیٹے کے لیے اس عورت کا نکاح حلال نہیں، اور بقول شیخ الاسلام یہ عورت اس کی محرم نہیں، اور احتیاط کی راہ اپنائے، تو یہ سب سے عمدہ ہے۔ کیونکہ اس قسم کی صورتوں میں احتیاط کرنا ہی سنت ہے۔ مثلا احادیث میں ہے کہ زمعہ کے لرکے کے بارے میں حضرت سعد بن ابی وقاص کا بیٹا ہے، وہ مجھے اس کی وصیت کر گیا تھا، لہذا یہ اس کا بیٹا ہے۔ مگر عبد بن زمعہ رضی اللہ عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! یہ میرا بھائی ہے، میرے والد کی لونڈی سے ہے، اور میرے والد کے فراش پر پیدا ہوا ہے۔ اس پر سعد رضی اللہ عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! اس کی شباہت ملاحظہ فرمائیے۔ آپ نے دیکھا تو اسے عتبہ بن ابی وقاص (زانی) کے مشابہ پایا۔ مگر آپ نے اس کا فیصلہ عبد بن زمعہ  رضی اللہ عنہ ہی کے حق میں کیا اور فرمایا: ’’اے عبد بن زمعہ! یہ تیرا (بھائی) ہے، بیٹا بستر والے کا ہوتا ہے اور زانی محروم رہتا ہے۔‘‘ پھر آپ نے (اپنی زوجہ ام المومنین) سیدہ سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا: ’’اے سودہ! اس لڑکے سے پردہ کر لو۔‘‘ باوجودیکہ آپ نے فیصلہ یہی فرمایا تھا کہ یہ اس (سودہ رضی اللہ عنہا) کا بھائی ہے، لیکن ساتھ ہی پردے کا حکم بھی دیا۔ کیونکہ آپ کو اس لڑکے اور اس کے مدعی عتبہ کے درمیان واضح مشابہت نظر آئی تھی۔‘‘ (صحیح بخاری،کتاب البیوع،باب تفسیر المشبھات،حدیث:1948کتاب الخصومات،باب دعوی الوحی للمیت،حدیث:2289وصحیح مسلم،کتاب الرضاع،باب الولد للفراش وتوقی الشبھات،حدیث:1457وسنن النسائی،کتاب الطلاق،باب الحاق الولد بالفراش۔۔۔۔۔،حدیث:3484۔)

آپ علیہ السلام کا یہ حکم احتیاط پر مبنی تھا، اور یہ حجاب اس شبہ کی بنا پر تھا، اگرچہ فیصلہ یہی فرمایا کہ یہ اُم المومنین سودہ رضی اللہ عنہا کا بھائی ہے، کیونکہ یہ ان کے والد کے فراش (بستر) پر پیدا ہوا تھا۔

تو رضاعی باپ کی بیوی کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔ ہم یہ تو نہیں کہیں گے کہ اس سے نکاح حلال نہیں ہے لیکن یہ عورت اس آدمی کی بھی محرم نہیں ہے۔

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

احکام و مسائل، خواتین کا انسائیکلوپیڈیا

صفحہ نمبر 614

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ