سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(868) خالہ زاد بہن سے شادی

  • 18475
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-01
  • مشاہدات : 1153

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

دو بہنیں ہیں، ایک کے ہاں صرف ایک لڑکا اور دوسری کے ہاں چار بچے ہیں۔ ان میں سب سے چھوٹی لڑكی ہے۔ پہلی کے لڑنے نے دوسری کے پہلے تینوں بچوں کے ساتھ، علاو چوتھی لڑکی کے، دودھ پیا ہے۔ کیا پہلی کا لڑکا دوسری کی اس لڑکی کے ساتھ شادی کر سکتا ہے جس کے ساتھ اس نے دودھ نہیں پیا ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جب پہلی کے لڑکے نے دوسری بہن یعنی اپنی خالہ کے دودھ پانچ یا اس سے زیادہ بار پی لیا ہے، ایک مجلس میں ہو یا کئی مجلسوں میں، خواہ پہلے بچے کے ساتھ پیا ہو یا دوسرے اور تیسرے کے ساتھ یا تینوں ہی کے ساتھ، تو اس طرح یہ لڑکا دوسری بہن کا رضاعی بیٹا بن گیا ہے، اور اب یہ اس کی ساری اولاد کا رضاعی بھائی ہے، خواہ وہ اس سے پہلے کے ہوں یا بعد کے، لہذایہ لڑکا اس لڑکی کے ساتھ نکاح نہیں کر سکتا ہے، کیونکہ اس کا رضاعی بھائی ہے اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿وَأُمَّهـٰتُكُمُ الّـٰتى أَرضَعنَكُم وَأَخَو‌ٰتُكُم مِنَ الرَّضـٰعَةِ...﴿٢٣﴾... سورةالنساء

"یعنی تم پر حرام ہیں ۔۔ تمہاری وہ مائیں جنہوں نے تمہیں دودھ پلایا ہو اور تمہاری رضاعی بہنیں بھی۔"

اور آپ علیہ السلام کا فرمان ہے:

يَحْرُمُ مِنَ الرَّضَاعِ مَا يَحْرُمُ مِنَ النَّسَبِ

’’رضاعت سے وہ سب رشتے حرام ہو جاتے ہیں جو نسب سے حرام ہوتے ہیں۔‘‘ (صحیح بخاری،کتاب الشھادات،باب الشھادۃعلی الانساب والرضاع،حدیث:2502وصحیح مسلم،کتاب الرضاع،باب تحریم الرضاعۃمن ماءالفحل،حدیث:1445سنن النسائی،کتاب النکاح،باب مایحرم من الرضاع،حدیث:3301وسنن ابن ماجہ،کتاب النکاح،باب یحرم من الرضاع مایحرم من النسب،حدیث:1937۔)

اس حدیث کے صحیح ہونے پر ائمہ کا اتفاق ہے۔ اگر رضاعت پانچ بار (پانچ چوسنیوں) سے کم ہو تو اس سے حرمت ثابت نہیں ہوتی۔ ایسے ہی اگر بچہ دو سال سے بڑا ہو تو بھی اس رضاعت سے حرمت ثابت نہیں ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿وَالو‌ٰلِد‌ٰتُ يُرضِعنَ أَولـٰدَهُنَّ حَولَينِ كامِلَينِ لِمَن أَرادَ أَن يُتِمَّ الرَّضاعَةَ...﴿٢٣٣﴾... سورةالبقرة

’’جو چاہتا ہو کہ اس کا بچہ پورا دودھ پیے تو مائیں اپنے بچوں کو پورے دو سال دودھ پلائی۔‘‘

لا رضاع الا ما فتق الا معاء وكان قبل الفطام

’’رضاعت وہی معتبر ہے جو آنتوں کو بڑھائے اور دودھ چھڑانے کی مدت سے پہلے ہو۔‘‘ (سنن الترمذی،کتاب الرضاع،باب ماجاءان الرضاعۃلاتحرم الافی الصغر دون الحولین،حدیث:1152ومصنف ابن ابی شیبۃ:550/3،حدیث:17057۔)

اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے ثابت ہے، فرماتی ہیں کہ ’’قرآن کریم میں ابتداء میں دس معلوم رضعات (چوسنیوں) کا حکم نازل ہوا تھا، جن سے حرمت ثابت ہوتی تھی۔ پھر انہیں منسوخ کر کے پانچ رضعات (چوسنیوں) کر دیا گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو معاملہ اسی پر تھا۔ (صحیح مسلم،کتاب الرضاع،باب التحریم بخمس رضعات،حدیث:1452وسنن الترمذی،کتاب الرضاع،باب ماجاءلا تحرم المصۃولا المصتان،حدیث:1150۔سنن النسائی،کتاب النکاح،باب القدر الذی یحرم الرضاعۃ،حدیث:3307۔)

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

احکام و مسائل، خواتین کا انسائیکلوپیڈیا

صفحہ نمبر 608

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ