سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(391) عاشوراء کا روزہ کس تاریخ کو ہوگا.؟

  • 1847
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1308

سوال

(391) عاشوراء کا روزہ کس تاریخ کو ہوگا.؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

(1)  ابن عباس رضی اللہ عنہما سے فتویٰ مسلم شریف میں موجود ہے کہ عاشوراء کا روزہ ۹ تاریخ کا ہے۔(صحیح مسلم۔کتاب الصیام۔باب صوم یوم عاشوراء)جبکہ ترمذی شریف میں انہی کا ایک فتویٰ موجود ہے کہ تم ۹۔ ۱۰ کا روزہ رکھو اب مسلم کے راوی بھی ابن عباس ہی ہیں اور خود ہی فرما رہے ہیں کہ ۹ اور ۱۰ کا روزہ رکھو یہ بات کہاں تک درست ہے ؟

(2) اگر ہم اسی بات سے ۱۰ کے روزے کومنسوخ کر کے ۹ میں تبدیل کریں کہ نبیﷺ نے فرمایا تھا کہ میں آئندہ سال زندہ رہا تو ۹ کا ضرور روزہ رکھوں گا اسی طرح تو آپﷺنے فرمایا تھا کہ آئندہ سال زندہ رہا تو حج تمتع کروں گا تو اس سے دوسرے حج منسوخ ہو جائیں گے۔

(3) مسند احمد میں حدیث ہے کہ عاشورہ کے ایک دن بعد کا یا پہلے کا روزہ رکھو (اگرچہ یہ روایت ضعیف ہے) لیکن جو دو روزوں کی دلیل لیتے ہیں اس کی تائید میں یہ روایت پیش کرتے ہیں کہ نبیﷺنے فرمایا کہ جمعہ کا روزہ نہ رکھو یا تو پہلے رکھو یا جمعہ کے بعد والے دن رکھو اب اس میں کیا جمعہ کا روزہ رکھنا ہے یا نہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

(1) عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا نو والا فتویٰ مرفوع حدیث کے موافق ہے بلکہ صحیح مسلم کی حدیث کے الفاظ اس بات میں نص صریح ہیں کہ انہوں نے نو والا فتویٰ حدیث مرفوع کی بنیاد پر دیا ہے جبکہ ان کے نو اور دس والے فتویٰ کی پشت پر کوئی صحیح مرفوع حدیث نہیں ہے بلکہ ان کا یہ فتویٰ نو والی حدیث نبویﷺ کے خلاف ہے لہٰذا ان کا نو والا فتویٰ ہی راحج ہے۔

نیز نو والا فتویٰ صحیح مسلم میں ہے اور نو اور دس والا فتویٰ مصنف عبدالرزاق میں ہے اور محدثین نے اصول حدیث میں وجوہ ترجیحات بیان کرتے ہوئے لکھا ہے ’’صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی احادیث کو بوقت تعارض دوسری کتب کی احادیث پر ترجیح ہو گی‘‘ اس لیے ان کا نو والا فتویٰ راحج ہے۔

نیز نو والے فتویٰ کے علاوہ جتنے فتوے ہیں وہ نو والی صحیح مرفوع حدیث کے مخالف ہیں جب کسی کا فتویٰ مرفوع حدیث کے خلاف آ جائے خواہ وہ اس حدیث کے راوی ہی کا کیوں نہ ہو تو عمل مرفوع حدیث پر کیا جائے گا نہ کہ فتویٰ پر «فَإِنَّهُ لاَ حُجَّةِ لِأَحَدٍ مَعَ النَّبِیِّ ﷺ» ا س موضوع پر ارشاد الفحول میں بہت اچھی بحث کی گئی ہے اس کا مطالعہ فرما لیں۔

(2) اس مقام پر دو فرق ہیں۔ پہلا فرق : رسول اللہﷺ کی معیت میں کوئی حج مفرد کر رہا ہے، کوئی تمتع اور کوئی قران ادھر ایسا نہیں ہے کہ کسی نے دس کا روزہ رکھا ہوا ہو اور کسی نے نو کا اور ایسا بھی نہیں کہ رسول اللہﷺ نے پہلےفرما رکھا ہو دس کا روزہ رکھو خواہ نو کا روزہ رکھو۔

دوسرا فرق : احادیث میں ذکر ہے رسول اللہﷺسے پوچھا گیا کیا یہ تمتع (یاد رہے تمتع اس جگہ عام ہے قران کو بھی شامل ہے جیسا کہ آیت کریمہ﴿فَمَنْ تَمَتَّعَ بِالْعُمْرَۃِ إِلَی الْحَجِّ﴾ میں عام ہے صرف اسی سال  کے لیے ہے یا ہمیشہ کے لیے  ہے ؟ تو آپﷺ نے فرمایا ہمیشہ کے لیے ہے تو آپﷺ نے قران کو بھی ہمیشہ کے لیے قرار دیا ہے اس لیے آئندہ تمتع کرنے سے وہ منسوخ  نہیں جبکہ ادھر آپﷺ نے کہیں نہیں فرمایا صوم عاشوراء ہمیشہ دس تاریخ کو ہو گا لہٰذا آئندہ سال نو والی حدیث کو آئندہ سال تمتع والی حدیث پر قیاس کرنا درست نہیں۔

(3) مسند احمد والی حدیث آپ خود اعتراف فرما رہے ہیں ضعیف ہے تو اس کو زیر بحث لانے کا کوئی فائدہ نہیں ہے پھر جمعہ کے روزے کے متعلق صحیح بخاری اور دیگر کتب حدیث سے آپﷺ کی حدیث کے الفاظ سامنے رکھ لیں اور مسند احمد والی اس ضعیف کے الفاظ بھی سامنے رکھ لیں تو آپ کو یقین ہو جائے گا کہ جمعہ کا روزہ جمعرات یا ہفتہ کا روزہ ساتھ ملا کر رکھنا درست ہے ۔ البتہ اکیلا جمعہ کا روزہ رکھنا منع ہے اورمسند احمد والی روایت ضعیفہ میں کوئی ایک لفظ بھی ایسا نہیں ہے جو دس کے روزے کو نو یا گیارہ کے ساتھ ملانے پر دلالت کرتا ہو ہاں شارحین اپنی طرف سے لکھتے ہیں ’’أی معہ‘‘ یا ’’یعنی معہ‘‘ انصاف شرط ہے لہٰذا یہ قیاس بھی درست نہیں۔

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

احکام و مسائل

روزوں کے مسائل ج1ص 281

محدث فتویٰ

تبصرے