سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(858) "بس اب تو میری بیوی ہے۔" کہنے سے بیوی نہیں بنتی

  • 18465
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-19
  • مشاہدات : 862

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میں چالیس سال کی عمر کو پہنچ رہی ہوں اور شرعی آداب کی پابند عورت ہوں۔ مجھے ایک نوجوان نے نکاح کا پیغام دیا ہے اور وہ حیلے سے مجھے ملنا چاہتا ہے اور کہتا ہے کہ "بس اب تو میری بیوی ہے۔" اور اس کی ایک دلیل یہ ہے کہ بعض اہل علم شہرت دیے بغیر نکاح کو جائز کہتے ہیں کہ بعد میں اعلان کرایا جائے گا۔ نیز امام مالک رحمہ اللہ کے مذہب کا بھی سہارا لیتے ہیں کہ "جس نے شہرت دیے بغیر نکاح کیا ہو، اسے رجم نہیں کیا جائے گا۔" اور میں (سائلہ) اکیلی رہتی ہوں، میں نے اس شخص کو ملنے سے انکار کر دیا ہے لیکن وہ کہتا ہے کہ "تو میری بیوی ہے، تو مجھے کیسے منع کر سکتی ہے" اور جب میں کہتی ہوں کہ گواہ لاؤ اور میرے والد کو لے آؤ، تو وہ کہتا ہے کہ میں ایسے گواہ تلاش کر رہا ہوں جو اس خبر کو فی الحال پوشیدہ رکھیں تاکہ میری پہلی بیوی کو علم نہ ہو، میں اسے بعد میں خود ہی بتاؤں گا۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ولی کے بغیر نکاح جائز نہیں اور نہ ہی کسی کے لیے ممکن ہے کہ عورت کے عصبہ میں سے کسی ولی کی موجودگی کے بغیر اس سے نکاح کر سکے، اور ولی بھی وہ جو شرعی ترتیب سے اولیٰ ہو۔ بغیر ولی کے نکاح قطعا صحیح نہیں ہے۔ کتاب و سنت سے یہی ثابت ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿وَلا تَنكِحُوا المُشرِكـٰتِ حَتّىٰ يُؤمِنَّ وَلَأَمَةٌ مُؤمِنَةٌ خَيرٌ مِن مُشرِكَةٍ وَلَو أَعجَبَتكُم وَلا تُنكِحُوا المُشرِكينَ حَتّىٰ يُؤمِنوا ... ﴿٢٢١﴾... سورة البقرة

’’اور مشرک عورتوں سے نکاح نہ کرو حتی کہ وہ ایمان لے آئیں، (ان کے مقابلہ میں) مومنہ لونڈی مشرکہ عورت سے بہت بہتر ہے خواہ وہ (مشرکہ) تمہیں کتنی ہی اچھی کیوں نہ لگے۔ اور مشرک مردوں کو (اپنی لڑکیاں) نہ بیاہ دو، حتی کہ وہ ایمان لے آئیں۔‘‘

مردوں سے فرمایا ہے کہ ’’مشرک عورتوں سے نکاح نہ کرو۔‘‘ اور مسلمان عورتوں کے بارے میں فرمایا: ’’مشرکوں کو نکاح نہ کر دو۔‘‘ یہ الفاظ دلیل ہیں کہ عورت اپنے نکاح کے سلسلے میں مستقل بالذات نہیں ہے۔

اسی طرح نکاح کی ترغیب کے سلسلے میں اولیاء کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا:

﴿وَأَنكِحُوا الأَيـٰمىٰ مِنكُم وَالصّـٰلِحينَ مِن عِبادِكُم ...﴿٣٢﴾... سورة النور

’’اور تم میں سے جو نکاح کیے بغیر ہیں ان کے نکاح کر دو اور (اسی طرح) اپنے صالح غلاموں کے بھی۔‘‘

اور عورتوں کے معاملات میں بھی اولیاء کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا:

﴿فَلا تَعضُلوهُنَّ أَن يَنكِحنَ أَزو‌ٰجَهُنَّ إِذا تَر‌ٰضَوا بَينَهُم بِالمَعروفِ...﴿٢٣٢﴾... سورة البقرة

’’تو انہیں اپنے شوہروں سے نکاح کرنے سے مت روکو جب وہ بھلائی کے ساتھ آپس میں رضا مند ہوں۔‘‘

اگر نکاح میں ولی ہونا شرط نہ ہوتا تو اس فرمان میں اس کے منع کی کوئی حیثیت ثابت نہیں ہوتی۔

اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بصراحت فرمایا ہے کہ:

لَا نِكَاحَ إِلَّا بِوَلِيٍّ (سنن ابی داود،کتاب النکاح،باب فی الولی،حدیث:2085۔سنن الترمذی،کتاب النکاح،باب ماجاءلانکاح الابولی،حدیث:1101وسنن ابن ماجہ،کتاب النکاح،باب لانکاح الابولی،حدیث:1881۔)

’’ولی کے بغیر کوئی نکاح نہیں۔‘‘

اور فرمایا:

لَا تُنْكَحُ الْأَيِّمُ حَتَّى تُسْتَأْمَرَ ، وَلَا تُنْكَحُ الْبِكْرُ حَتَّى تُسْتَأْذَنَ (صحیح بخاری،کتاب النکاح،باب لاینکح الاب وغیرہ البکر والثیب الا برضاھا،حدیث:4843وصحیح مسلم،کتاب النکاح،باب استئذان الثیب فی النکاح،حدیث:1419۔)

’’شوہر دیدہ کا نکاح اس وقت تک نہ کیا جائے یہاں تک کہ اس سے مشورہ کر لیا جائے، اور کنواری کا بھی جب تک کہ اس سے اجازت نہ لے لی جائے‘‘

صحابہ نے دریافت کیا: اے اللہ کے رسول! کنواری کی اجازت کیسے ہو گی؟ فرمایا ’’یہی کہ وہ خاموش رہے۔‘‘

ان حقائق کی روشنی میں ہم کہتے ہیں کہ یہ آدمی جو ایک حیلے سے اس عورت کے ساتھ خلوچ میں ملنا چاہتا ہے کہ اس نے کہا ہےکہ: "تو میری ہی بیوی ہے۔" یہ بات کہنے سے یہ عورت اس کی بیوی نہیں بن سکتی، بلکہ اس مقصد کے لیے ولی کا ہونا شرط ہے۔

اور یہ مسئلہ کہ نکاح کی شہرت ہو اور اس کا اعلان کیا جائے، اس میں علماء کا قدرے اختلاف ہے۔ کچھ تو قائل ہیں کہ اعلان بہت ضروری ہے اور دوسرے کہتے ہیں اظہار اور شہرت کافی ہے، اعلان خواہ نہ بھی ہو۔

الغرض اس آدمی کا یہ دعویٰ کہ یہ عورت میری بیوی ہے سراسر جھوٹ ہے، اس کی شرعی طور پر کوئی بنیاد نہیں ہے۔ اس عورت کو چاہئے کہ اپنے اولیاء اور سرپرستوں سے رابطہ کرے تاکہ وہ اس آدمی کو اس سے دفع دور کر دیں۔

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

احکام و مسائل، خواتین کا انسائیکلوپیڈیا

صفحہ نمبر 602

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ