السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
بغیر کسی معقول وجہ کے قطع نسل (نس بندی یا خاندانی منصوبہ بندی)کا کیا حکم ہے؟ اور وہ کیا کیا عذر ہیں جن کی بنا پر یہ عمل جائز ہو سکتا ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
علمائے کرام نے یہ صراحت کی ہے کہ کلی طور پر قطع نسل کی کوشش کرنا حرام ہے، کیونکہ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس خواہش اور احادیث کی مخالفت ہے جو آپ نے اپنی امت میں چاہی ہے، ([1]) اور یہ عمل مسلمانوں کی ذلت و کمزوری کا ایک بڑا سبب ہے۔ مسلمانوں کی تعداد جس قدر زیادہ ہو گی اس میں ان کی شان اور رفعت ہے۔ اللہ عزوجل نے بنی اسرائیل کی کثرت تعداد کو ان پر ایک بڑے احسان کے طور پر شمار فرمایا ہے:
﴿وَجَعَلنـٰكُم أَكثَرَ نَفيرًا ﴿٦﴾... سورة الإسراء
’’اور تمہارے افراد کو بہت زیادہ بنا دیا۔‘‘
شعیب علیہ السلام نے بھی اپنی قوم کو یہی انعام یاد دلایا اور فرمایا:
﴿وَاذكُروا إِذ كُنتُم قَليلًا فَكَثَّرَكُم ...﴿٨٦﴾... سورة الاعراف
’’اور یاد کرو کہ تم تھوڑے تھے تو اللہ نے تمہیں زیادہ کر دیا۔‘‘
اور صورت حال اس کی بہترین گواہ ہے کہ جو قوم کثیر تعداد میں ہو وہ دوسروں سے مستغنی ہوتی ہے اور اسے اپنے دشمنوں کے مقابلے میں رعب و ہیبت حاصل ہوتا ہے، تو انسان کے لیے جائز نہیں کہ کلی طور پر قطع نسل کی کوشش کرے۔ ہاں اگر فی الواقع اس کی ضرورت ہو تو ایک بات ہے۔ مثلا کوئی ماں صحت کے اعتبار سے ایسی کمزور ہو کہ اگر حمل سے دوچار ہوئی ہو تو اسے ہلاکت اور موت کا اندیشہ ہو تو یہ ایک شرعی ضرورت ہے۔ ایسی عورت کے لیے جائز ہے کہ اس کی نس بندی کر دی جائے کہ وہ آئندہ کے لیے حاملہ نہ ہو۔ یا مثلا اس کے رحم میں کوئی ایسی تکلیف ہو اور اندیشہ ہو کہ اگر اسے نکالا نہ گیا تو عورت ہلاک ہو جائے گی تو ایسی صورت میں اس کا رحم کاٹ کر نکال دینا جائز ہے۔
[1] نبی کریم ﷺکی خواہش یہ تھی کہ تم زیادہ بچے پیدا کروگے تو میری امت بڑھتی جائے گی اور پھر میں روز قیامت دیگر امتوں کے مقابل اپنی امت کے کثیر ہونے پر فخر(خوشی محسوس)کروں گا۔دیکھیے:سنن ابی داود،کتاب النکاح،باب النھی عن تزوج من لم یلد من النساء،حدیث:2050۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب