السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ہمارے ہاں یہ رواج ہو چلا ہے کہ لڑکی یا اس کا والد نکاح کا پیغام ٹھکرا دیتے ہیں اور بہانہ یہ کیا جاتا ہے کہ لڑکی زیر تعلیم ہے، حالانکہ تکمیل تعلیم میں کئی سال پڑے ہوتے ہیں، ایسے لوگوں کو آپ کیا فرمائیں گے؟ اور بعض اوقات لڑکیاں تیس تیس سال کو پہنچ جاتی ہیں اور ان کی شادی نہیں ہوتی ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
یہ صورت حال نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے برخلاف ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
ذَا أَتَاكُمْ مَنْ تَرْضَوْنَ خُلُقَهُ وَدِينَهُ ، فَأَنْكِحُوهُ (سنن ابن ماجہ،کتاب النکاح،باب الاکفاء،حدیث:1967والمستدرک للحاکم:179/2،حدیث:2695)
’’جب تمہیں کسی ایسے فرد کا پیغام آئے جس کا دین و خلق پسندیدہ ہو تو اسے نکاح کر دو۔‘‘
یہ روایت اسی مفہوم ومعنی میں بہت سی کتب حدیث میں موجود ہے لیکن یہاں حوالہ صرف شیخ صاحب کے بیان کردہ الفاظ کے مطابق ہے۔
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک فرمان یہ بھی ہے کہ:
يَا مَعْشَرَ الشَّبَابِ ، مَنِ اسْتَطَاعَ مِنْكُمُ الْبَاءَةَ فَلْيَتَزَوَّجْ ؛ فَإِنَّهُ أَغَضُّ لِلْبَصَرِ ، وَأَحْصَنُ لِلْفَرْجِ (صحیح بخاری،کتاب النکاح،باب من لم یستطع الباءۃفلیصم،حدیث؛4779وصحیح مسلم،کتاب النکاح،باب استحباب النکاح لمن۔۔۔۔۔،حدیث؛1400وسنن النسائی،کتاب الصیام،باب ذکر الاختلاف علی محمد بن ابی یعقوب،حدیث:2239۔)
’’اے نوجوانو! تم میں سے جو طاقت رکھتا ہو اسے چاہئے کہ شادی کر لے، بلاشبہ یہ عمل نظروں کو بہت زیادہ جھکانے والا اور عصمت کی بہت حفاظت کرنے والا ہے۔‘‘
اور نکاح و شادی سے انکار کر دینے سے بے شمار شرعی اور معاشرتی مصالح فوت ہو جاتے ہیں۔ میں اپنے مسلمان بہن بھائیوں سے جو لڑکیوں کے ولی اور سرپرست ہیں، یہی کہوں گا کہ تکمیل تعلیم یا تدریس کے بانے سے ان کی شادیوں میں تاخیر نہ کیا کریں۔ (اگر کہیں زیادہ ہی ضروری ہو تو) شوہر سے یہ شرط طے کی جا سکتی ہے کہ لڑکی تکمیل تعلیم تک زیر تعلیم رہے گی یا جب تک بچے بچی کی مشغولیت سامنے نہیں آتی ایک دو سال کے لیے تدریس کرتی رہے گی۔ مگر ایسے علوم اور ایسے تعلیمی مراحل یونیورسٹی وغیرہ کے جن کی ہمیں کوئی خاص ضرورت نہیں ان میں ترقی کا شوق ایک ایسا مسئلہ ہے جو قابل بحث ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ لڑکی جب اپنی ابتدائی تعلیم مکمل کر لے اور لکھنا پڑھنا بخوبی جان لے کہ قرآن کریم، تفسیر، احادیث نبویہ اور ان کی شروحات پڑھ سکتی ہو تو یہ اس کے لیے کافی ہے۔ ہاں ایسے علوم و فنون جن کی لوگوں کو اشد ضرورت ہوتی ہے جیسے کہ علم طب وغیرہ ہے تو ان میں عورتوں کو ضرور آگے بڑھنا چاہئے بشرطیکہ کوئی شرعی رکاوٹ از قسم مردوں کے ساتھ اختلاط وغیرہ نہ ہو۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب