سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(854) بيوی کو ماں یا بہن کہنا

  • 18461
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-20
  • مشاہدات : 787

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میرے شوہر نے مجھ پر طلاق کی قسم ڈالی اور کہا کہ تو میرے لیے ایسے ہے جیسے کہ میری ماں یا بہن، اور پھر ایسے مقدر ہوا کہ ہم دوبارہ اکٹھے ہو گئے، اور میں حمل کے ساتویں مہینے میں تھی۔ میرے گھر والوں نے میرے شوہر کو پابند کیا کہ وضع حمل سے پہلے پہلے تین مسکینوں کو کھانا کھلائے۔ اور اب مجھے دو ماہ ہو رہے ہیں کہ وضع حمل ہو گیا ہے۔ میرا شوہر مالی مشکلات سے دو چار ہے۔ اس کی نیت تو ہے کہ تین مسکینوں کو کھانا کھلائے گا مگر ابھی تک یہ نہیں کر سکا ہے۔ اور میں ایک مسلمان دیندار خاتون ہوں، اللہ سے بہت ڈرتی ہوں کہ میں اپنے شوہر کے ساتھ حرام انداز میں نہ رہ رہی ہوں، براہ مہربانی اس مسئلہ کی وضاحت فرمائیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

آپ کے شوہر نے یہ الفاظ جو بولے ہیں یہ طلاق کے الفاظ نہیں ہیں بلکہ یہ "ظہار" ہے، یوں کہ اس نے کہا "تو میرے لیے ایسے ہے جیسے میری ماں ہو یا بہن۔" اور "ظہار" جیسے کہ اللہ عزوجل نے بیان فرمایا، بہت بری اور غلط بات ہے۔ آپ کے شوہر کو چاہئے کہ جو اس سے ہو چکا اس کی اللہ سے معافی مانگے اور جب تک اللہ کے فرمان کے مطابق کفارہ نہ دے لے اسے تم سے تمتع حاصل کرنا جائز نہیں ہے۔ ظہار کے کفارہ کے سلسلہ میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿وَالَّذينَ يُظـٰهِرونَ مِن نِسائِهِم ثُمَّ يَعودونَ لِما قالوا فَتَحريرُ رَقَبَةٍ مِن قَبلِ أَن يَتَماسّا ذ‌ٰلِكُم توعَظونَ بِهِ وَاللَّهُ بِما تَعمَلونَ خَبيرٌ ﴿٣ فَمَن لَم يَجِد فَصِيامُ شَهرَينِ مُتَتابِعَينِ مِن قَبلِ أَن يَتَماسّا فَمَن لَم يَستَطِع فَإِطعامُ سِتّينَ مِسكينًا ذ‌ٰلِكَ لِتُؤمِنوا بِاللَّهِ وَرَسولِهِ وَتِلكَ حُدودُ اللَّهِ وَلِلكـٰفِرينَ عَذابٌ أَليمٌ ﴿٤﴾... سورةالمجادلة

’’اور جو لوگ اپنی بیویوں سے ظہار کر لیتے ہیں، اور پھر اپنے کہے سے رجوع کرتے ہیں تو (ان کے ذمے ہے) ایک گردن آزاد کرنا، قبل اس سے کہ ایک دوسرے کو ہاتھ لگائیں۔ تمہیں اس کی نصیحت کی جا رہی ہے، اور اللہ تعالیٰ جو بھی تم عمل کرتے ہو اس سے خوب باخبر ہے اور جو شخص نہ پائے تو (اس کے ذمے) دو مہینے کے روزے ہیں متواتر، قبل اس سے کہ ایک دوسرے کو ہاتھ لگائیں، اور جسے یہ طاقت نہ ہو تو ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانا ہے۔ یہ اس لیے کہ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ، اور یہ اللہ کی حدیں ہیں اور کافروں (یعنی نہ ماننے والے) کے لیے دردناک عذاب ہے۔‘‘

الغرض شوہر کو آپ کے قریب ہونا اور تم سے متمتع ہونا جائز نہیں حتی کہ وہ ادا کر دے جس کا اللہ نے حکم دیا ہے، اور تمہارے لیے بھی حلال نہیں ہے کہ جب تک وہ اللہ کا حکم پورا نہ کر لے اسے اپنے نفس پر کوئی موقع دو۔

اور خاتون کے گھر والوں نے جو اسے تیس مسکینوں کو کھانا کھلانے کا پابند کیا ہے، یہ غلط ہے، ٹھیک نہیں ہے۔ قرآن کریم کے مطابق، جیسے کہ آپ نے سنا، اس پر واجب ہے کہ ایک گردن آزاد کرے، اگر یہ نہ کر سکے تو دو ماہ متواتر روزے رکھے، یہ بھی اگر مشکل ہوں تو ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلائے۔ "گردن آزاد" کرنے کا مفہوم واضح ہے کہ کسی مملوک غلام کو خرید کر غلامی سے آزاد کرے۔ اور دو ماہ متواتر روزے رکھنے کا مفہوم یہ ہے مسلسل بلا کسی تعطن اور وقفہ کے روزے رکھے، سوائے اس کے کہ کوئی شرعی عذر پیش آ جائے، مثلا بیمار ہو جائے یا سفر درپیش ہو۔ اس عذر کے زائل ہونے کے بعد سابقہ گنتی پر بقیہ روزے پورے کرے۔ اور ساٹھ مساکین کو کھانا کھلانے کی دو صورتیں ہیں: یا تو کھانا تیار کر کے انہیں اس کی دعوت دے حتیٰ کہ وہ اسے کھا لیں یا خشک طعام چاول وغیرہ جو طعام لوگ کھاتے ہیں، ان میں تقسیم کر دے۔ گندم (یا اسی قسم کا غلہ) ہر ایک کو ایک ایک مد (اڑھائی پاؤ) پیش کرے یا دوسری قسم کا کوئی اور طعام ہو تو آدھا آدھا صاع (سوا کلو) ہونا چاہئے۔

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

احکام و مسائل، خواتین کا انسائیکلوپیڈیا

صفحہ نمبر 598

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ