السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک شخص نے اپنی بیوی کو سنت کے مطابق طلاق دی اور پھر اس کی تحریر بھی اس کے حوالے کر دی، اور اب وہ اس کی طرف رجوع کرنا چاہتا ہے۔ تو کیا یہ رجوع عورت کی مرضی کے بغیر اجباری عمل ہے یا یہ عورت کی رضامندی پر موقوف ہے، اور کیا رجوع کی کوئی شرطیں بھی ہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اگر طلاق فی الوقت سنت کے مطابق دی گئی ہو تو جب تک عورت عدت میں ہو شوہر کو حق ہے کہ دو گواہوں کی موجودگی میں اپنی بیوی کی طرف رجوع کر لے، عورت خواہ رضامند ہو یا نہ ہو، بشرطیکہ یہ اس کی آخری تیسری طلاق نہ ہو یا بیماری میں نہ دی ہو۔ اگر عورت اپنی عدت پوری کر چکی ہو، یا شوہر نے بیماری کے باعث طلاق دی ہو اور طلاق آخری تیسری نہ ہو تو شوہر کو نئے عقد اور نئے مہر کے ساتھ اور عورت کی رضا مندی سے رجوع کا حق حاصل ہے۔ اور ان دونوں صورتوں میں شوہر کی ایک طلاق شمار ہو گی۔
اور اگر یہ طلاق تیسری طلاق ہو تو عورت اس آدمی کے لیے حلال نہیں رہتی سوائے اس کے کہ یہ کسی اور آدمی سے حقیقی شرعی نکاح کرے اور پھر وہ اس سے ملاپ بھی کرے۔ تو اگر وہ دوسرا طلاق دے دے یا وفات پا جائے تو عدت کے بعد یہ پہلے شوہر کے لیے نئے عقد اور نئے مہر کے ساتھ حلال ہو جائے گی بشرطیکہ عورت راضی ہو۔
اور اگر کوئی عورت حمل سے ہو اتو اس کی عدت وضع حمل ہے خواہ طلاق ہو یا شوہر وفات پا جائے۔ اگر شوہر وفات پا جائے اور عورت حمل سے نہ ہو تو اس کی عدت چار ماہ دس دن ہے۔ اور اگر معمول کے حالات میں طلاق ہو یعنی حیض کی عمر میں اور حیض بھی آتا ہو تو عدت تین حیض ہوتی ہے۔ یعنی بڑی عمر کی ہو اور حیض نہ آتا ہو یا صغیر السن ہو کہ حیض نہ آیا ہو اتو اس کی عدت تین ماہ ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب