السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
بیوی شوہر سے مطالبہ کرتی ہے کہ مجھے طلاق دے دو، مگر وہ شرط کرتا ہے کہ یہ تبھی ہو گا جب تو مجھے میرے ذمے اپنے حقوق سے بری الذمہ قرار دے۔ چنانچہ عورت نے اسے ذمیہ حقوق سے بری کر دیا۔ تو کیا عورت کا یہ فعل درست ہے خواہ اس کے والد نے اسے اجازت نہ دی ہو؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اگر عورت عقل مند اور اپنے بھلے برے کو بخوبی سمجھتی ہے تو اس کے لیے ماں باپ سے اجازت لینا شرط نہیں ہے۔ لہذا اگر اس نے اپنے شوہر کو بری قراردیا ہو تو صحیح اور ثابت ہو گا خواہ عورت کے ماں باپ انکاری بھی ہوں۔ لیکن اگر عورت نادان ہو مثلا چھوٹی عمر کی ہو یاویسےبھی اپنے معاملات سے کماحقہ آگاہ نہ ہو تو اس کے لیے (اپنے اولیاء) مثلا والد بھائی کی اجازت کے بغیر اپنے شوہر کو بری کرنا صحیح نہیں ہو گا، بشرطیکہ اس امر میں ان میاں بیوی دونوں کی مصلحت ہو، مثلا ان دونوں کو ایک دوسرے سے راحت دینا مطلوب ہو۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب