السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میری بیوی نے قاضی کے سامنے مجھ سے خلع کا مطالبہ کیا اور کہا وہ دو ہزارریال اور میرے دو بچے میرے حوالے کر دے گی۔ چنانچہ معاہدہ طے ہو گیا اور بچے میرے سپرد کر دیے گئے، مگر رقم ادا نہیں کی۔ اور قاضی نے اس سے کہا کہ عدت گزارے، چنانچہ اس نے عدت پوری کی اور ایک جگہ شادی کر لے، حالانکہ اس نے مجھے طے شدہ رقم ادا نہیں کی تھی، بلکہ ابھی تک وہ میری مقروض ہے اور کوئی طے نہیں کیا کہ کب دے گی۔ بلکہ اب بذریعہ پولیس بچوں کا مطالبہ کر رہی ہے۔ کیا قاضی نے ہمارا جو خلع کرایا اور عورت نے جو مجھے رقم نہیں دی کیا یہ صحیح ہوا ہے؟ اور عورت نے جو نکاح کیا ہے اس کا کیا حکم ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
صورت مسئولہ میں عورت نے جو نکاح کیا ہے وہ صحیح ہے، کیونکہ اس خلع میں رقم وصول کر لینا شرط نہیں تھا۔ اور شوہر کا یہ سمجھنا کہ وہ اس عوض کی وصولی میں کوئی مدت نہیں دے گا، یہ اس کی اپنی سوچ کی حد تک ہے، اگرچہ بنیادی طور پر خلع میں اگر مدت طے نہیں کی گئی ہو تو اصل یہی ہے کہ اس میں مدت اور تاخیر نہیں ہوتی، اور عورت جو اس میں تاخیر کر رہی ہے اس سے وہ ادائیگی مؤجل بھی نہیں بنتی ہے۔ بلکہ یہ عورت اس انداز سے "ٹال مٹول کرنے والی" بنی ہے، بشرطیکہ وہ ادئیگی پر قادر ہو۔ اور اس کا اس عوض کی ادائیگی میں ٹال مٹول سے کام لینا اور ظلم کرنا، اس خلع کے صحیح ہونے میں رکاوٹ نہیں ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب