السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا خلع بیوی کے لیے تین طلاقوں میں سے ایک شمار ہوتا ہے یا نہیں؟ اور کیا اس میں شرط ہے کہ اس میں لفظ طلاق استعمال نہ ہو اور طلاق کی نیت بھی نہ ہو؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس مسئلے میں علمائے سلف و خلف کا اختلاف ہے۔
قول اول: ۔۔۔ امام احمد رحمہ اللہ اور ان کے اصحاب کا ظاہر مذہب یہ ہے کہ "خلع" زوجین میں فرقت بائنہ اور نکاح کا فسخ ہے اور تین طلاقوں میں سے شمار نہیں ہے۔ اگر بالفرض شوہر بیوی سے بصورت خلع دس بار بھی علیحدگی اختیار کرے، تو اسے حق حاصل ہوتا ہے کہ اس صورت میں نیا نکاح کر سکے بغیر اس کے کہ وہ کسی اور آدمی سے نکاح کرے۔ امام شافعی رحمہ اللہ کا بھی ایک قول اسی طرح ہے۔ اور ان کے اصحاب میں سے ایک جماعت نے اسے ہی اختیار کیا ہے اور جمہور فقہائے حدیث بھی یہی کہتے ہیں، مثلا اسحاق بن راہویہ، ابوثور، داؤد بن منذر، ابن خزیمہ رحمہم اللہ اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ اور ان کے اصحاب طاؤس اور عکرمہ سے یہی ثابت ہے۔
قول ثانی: ۔۔۔ یہ ہے کہ خلع طلاق بائنہ ہے اور تین طلاقوں میں سے شمار ہوتا ہے۔ سلف میں سے بہت سے ائمہ کا یہی قول ہے۔ امام ابوحنیفہ اور مالک رحمہما اللہ کے علاوہ امام شافعی رحمہ اللہ کا قول جدید بھی یہی ہے۔ امام احمد رحمہ اللہ سے بھی ایک روایت اسی کے مطابق آئی ہے۔ حضرت عمر، عثمان، علی اور ابن مسعود رضی اللہ عنہم سے بھی یہی منقول ہے۔ مگر امام احمد رحمہ اللہ اور دیگر ائمہ حدیث مثلا ابن منذر، ابن خزیمہ، بیہقی نے اس نقل کو ضعیف قرار دیا ہے، سوائے قول ابن عباس کے۔ ان کے نزدیک یہ فسخ ہے اور طلاق نہیں۔
امام شافعی وغیرہ کہتے ہیں، ہمیں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے روایت کرنے والوں کا حال معلوم نہیں۔ کیا ان کا قول وہی ہے جو صحابہ سے منقول ہے (یا کوئی اور)؟ وہ اعتراف کرتے ہیں کہ ہمیں اس کی صحت معلوم نہیں ہے۔ اور مجھے بھی اہل علم میں سے کسی کے متعلق صحیح طور پر علم نہیں کہ اس نے صحابہ سے منقول اس قول کو صحیح قرار دیا ہو کہ یہ طلاق بائن ہے اور طلاق ثلاثہ میں سے شمار ہے۔ بلکہ سب سے بہتر اور صحیح سند سے جو ثابت ہے وہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ انہوں نے خلع والی عورت سے کہا تھا کہ وہ ایک حیض سے استبراء کرے اور یہ کہ اس پر عدت نہیں ہے۔ (مصنف ابن ابی شیبۃ:513/3،حدیث:16625۔) اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک خلع سے فرقت بائنہ ہو جاتی ہے اور یہ طلاق نہیں ہے۔ کیونکہ طلاق سے، جو بعد از دخول ہو، تین حیض عدت لازم آتی ہے جیسے کہ قرآن کریم کی نص اور مسلمانوں کا اجماع ہے، بخلاف خلع کے، اور سنت اور آثار صحابہ سے یہی ثابت ہے کہ خلع والی عورت کی مدت ایک حیض سے استبراء ہے۔ امام اسحاق اور ابن منذر وغیرہ کا یہی مذہب ہے اور امام احمد رحمہ اللہ سے بھی ایک روایت اسی طرح کی ہے۔
اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے ایک عورت کو اس کے شوہر کی طرف لوٹا دیا تھا جسے دو طلاقین دی گئی تھیں اور ایک بار خلع ہوا تھا جبکہ اس نے کسی اور مرد سے نکاح نہیں کیا تھا۔ (مصنف عبد الرزاق:487/6،حدیث:11771حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کا فتویٰ ہے۔) اور ابراہم بن سعد بن ابی وقاص جب عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی طرف سے یمن کے والی تھے تو انہوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے یہ مسئلہ دریافت کیا، اور بتایا کہ اہل یمن میں بالعموم طلاق بصورت فدیہ کے ہوتی ہے، تو ابن عباس رضی اللہ عنہ نے جواب دیا فدیہ (عوض) طلاق نہیں ہوتی، لیکن لوگوں نے اس کا نام غلط طور پر طلاق رکھا ہوا ہے۔ (مصنف عبد الرزاق:485/6،حدیث:11765۔)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب