سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(832) خاوند کی لا پروائی اور ظلم کی وجہ سے گھر چھوڑنا

  • 18439
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-08
  • مشاہدات : 795

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میرا شوہر اللہ اسے معاف کرے، باوجودیکہ بااخلاق اور اللہ کا خوف رکھنے والا ہے لیکن گھر میں میرا بالکل خیال نہیں کرتا ہے، ہمیشہ تیوری سی چڑھائے رکھتا اور تنگ دل سا رہتا ہے۔ لیکن اللہ جانتا ہے میں بحمداللہ اس کے حقوق ادا کرتی ہوں، ہر طرح راحت اور سکون مہیا کرنے کی کوشش میں رہتی ہوں، اور ہر وہ چیز جو اسے پریشان کر سکتی ہو، اور اس سے دور رکھتی ہوں، اور میرے ساتھ جو اس کا سلوک ہوتا ہے اس پر صبر کرتی ہوں۔ اور جب بھی کوئی چیز طلب کروں یا کوئی بات کروں تو غضب ناک ہو جاتا اور بھڑک اٹھتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ بات نا معقول اورردی ہے۔ مگر اپنے دوستوں اور ساتھیوں کے ساتھ برا نہیں رہتا ہے، مگر مجھے اس سے ڈانٹ ڈپٹ ہی ملتی ہے۔ اس کیفیت سے میں انتائی اذیت اور عذاب میں ہوں۔ کئی دفعہ سوچا ہے گھر چھوڑ دوں۔ میں بحمداللہ ایک متوسط درجہ کی تعلیم یافتہ خاتون ہوں، اور اللہ نے جو مجھ پر فرض کیا ہے ادا کرتی ہوں۔ سماحۃ الشیخ! اگر میں گھر چھوڑ دوں، بچوں کی تربیت کروں اور اپنا بوجھ خود ہی اٹھا لوں، تو کہیں گناہ گار تو نہ ہوں گی؟ یا مجھے اسی حال میں اس کے ساتھ نباہ کرنا چاہئے اور اس کے ساتھ بات چیت، گھر میں شراکت داری اور اس کی مشکلات کے احساس سے بے تعلق ہو جاؤں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس میں قطعا کوئی شبہ نہیں کہ میاں بیوی دونوں پر واجب ہے کہ آپس میں بھلے انداز میں زندگی گزاریں، ایک دوسرے سے محبت بھرے انداز میں اور عمدہ اخلاق سے ملیں اور اچھے انداز میں گزارہ کریں۔ اللہ عزوجل کا فرمان ہے:

﴿وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ﴾

’’اور عورتوں کے ساتھ اچھے انداز میں زندگی گزاریں۔‘‘

اور فرمایا

﴿ وَلَهُنَّ مِثلُ الَّذى عَلَيهِنَّ بِالمَعروفِ وَلِلرِّجالِ عَلَيهِنَّ دَرَجَةٌ ...﴿٢٢٨﴾... سورة البقرة

’’اور ان عورتوں کے بھی حقوق ہیں جیسے کہ ان کے فرائض ہیں، بھلے انداز میں، اور مردوں کو ان پر ایک درجہ فوقیت ہے۔‘‘

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:

الْبِرُّ حُسْنُ الْخُلُقِ

’’نیکی حسن خلق کا نام ہے۔‘‘ (صحیح مسلم،کتاب البروالصلۃوالاداب،باب تفسیر البروالائم،حدیث:2553وسنن الترمذی،کتاب الزھد،باب البر والائم،حدیث:2389۔)

اور فرمایا:

لَا تَحْقِرَنَّ مِنْ الْمَعْرُوفِ شَيْئًا وَلَوْ أَنْ تَلْقَى أَخَاكَ بِوَجْهٍ طَلْقٍ

’’نیکی میں سے ہرگز کسی چیز کو حقیر مت جانو، خواہ یہ ہی ہو کہ تو اپنے بھائی سے کھلتے چہرے سے ملاقات کرے۔‘‘(صحیح مسلم،کتاب البر والصلۃوالاداب،باب استحباب طلاقۃالوجہ عند اللقاء،حدیث:2626وسنن الترمذی،کتاب الاطعمۃ،باب اکثارماءالمرقۃ،حدیث:1833۔)

اور یہ بھی فرمایا کہ:

اكمل المومنين ايمانا احسنهم خلق

’’اہل ایمان میں کامل ایمان والا وہی ہے جو ان میں اخلاق میں سب سے بڑھ کر عمدہ ہو۔‘‘ (سنن ابی داود،کتاب السنۃ،باب الدلیل علی زیادۃالایمان ونقصانہ،حدیث:4682۔سنن الترمذی،کتاب الرضاع،باب حق المراۃعلی زوجھا،حدیث:1162۔)

نیز فرمایا:

خَيْرُكُمْ خَيْرُكُمْ لِأَهْلِهِ ، وَأَنَا خَيْرُكُمْ لِأَهْلِي

’’تم میں سے بہترین وہی لوگ ہیں جو اپنی بیویوں کے لیے بہترین ہوں اور میں اپنے گھر والوں کے لیے تم سے سے بڑھ کر عمدہ ہوں۔‘‘ (فضیلۃالشیخ نے یہ روایت بالمعنی بیان کردی ہے۔بہرحال دیکھیے:سنن الترمذی،کتاب الرضاع،باب حق المراۃ علی زوجھا،حدیث:1162ومسند احمد بن حنبل:472/2،حدیث:10110۔)

اس کے علاوہ بہت سے احادیث ہیں جن میں عام مسلمانوں کے مابین حسن خلق بہترین انداز میں ملاقات کرنے اور اچھے انداز میں زندگی گزارنے کی تلقین کی گئی ہے۔ تو میاں بیوی اور رشتہ داروں کے مابین تو یہ انداز اور بھی بڑھ کر ہونا چاہئے۔ آپ نے اب تک جو شوہر کی بدخلقی اور بدمزاجی کو صبر و تحمل سے برداشت کیا ہے قابل تعریف ہے۔ اور میں آپ کو وصیت کرتا ہوں کہ اور بھی صبروتحمل اور برداشت سے کام لیں اور گھر نہ چھوڑیں۔ اس میں ان شاءاللہ بہت زیادہ خیر اور انجام محمود ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿وَاصبِروا إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصّـٰبِرينَ ﴿٤٦﴾... سورةالانفال

’’صبر سے کام لو، بلاشبہ اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔‘‘

اور فرمایا:

﴿إِنَّهُ مَن يَتَّقِ وَيَصبِر فَإِنَّ اللَّهَ لا يُضيعُ أَجرَ المُحسِنينَ ﴿٩٠﴾...سورة يوسف

’’بلاشبہ جو بندہ تقویٰ شعار ہو اور صبر کرے تو اللہ تعالیٰ نیکو کاروں کا اجر ضائع نہیں کرتا۔‘‘

اور فرمایا:

﴿إِنَّما يُوَفَّى الصّـٰبِرونَ أَجرَهُم بِغَيرِ حِسابٍ ﴿١٠﴾... سورة الزمر

’’صبر کرنے والوں کو ان کا اجر بے حساب دیا جائے گا۔‘‘

اور جہاں تک ہو سکے اس کی طرف توجہ کرو اور ایسے الفاظ سے گفتگو کرو جو اس کے دل کو نرم کرنے والے ہوں جن کے نتیجے میں وہ تمہارے ساتھ خوش دلی کا مظاہرہ کرے اور تمہارے حق کا احساس ہو۔ اور دنیاوی ضروریات کا اس سے مطالبہ کرنا چھوڑ دو اگر وہ از خود لازمی ضروریات مہیا کر رہا ہے۔ اس طرح ان شاءاللہ اس کا دل اور سینہ آپ کے اہم مقاصد کے لیے کھل جائے گا اور انجام کار آپ کو خوشی ہو گی۔

اللہ تعالیٰ آپ کو ہر طرح کی نیکیاں کرنے کی اور بھی توفیق دے، آپ کے شوہر کی حالت سدھار دے، اسے راہ حق سجھائے، حسن خلق، بشاشت اور حقوق کا خیال رکھنے کی توفیق دے۔ بلاشبہ وہی بترین مسےول اور سیدھی راہ کی توفیق دینے والا ہے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

احکام و مسائل، خواتین کا انسائیکلوپیڈیا

صفحہ نمبر 587

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ