السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک عورت بلا اجازت شوہر کے گھر سے اپنے والد کے ہاں چلی گئی ہے اور چھ ماہ سے وہیں ہے اور عذر بھی کوئی (شرعی) نہیں، اور صلح کرانے والے بھی کامیاب نہیں ہو سکے۔ اس کا کہنا یہ ہے کہ وہ اپنی سوتن سے دکھ میں ہے۔ اس نے شوہر سے ٹیلی فون پر بھی بات کرنے سے انکار کیا، اس لیے کہ اپنے بھائی سے اجازت نہیں لی۔ ایسی عورت کا کیا حکم ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
یہ عورت "ناشزہ" یعنی اپنے شوہر کی نافرمان ہے۔ اگر اسی حالت میں فوت ہو گئی تو ایک کبیرہ گناہ کی حالت میں مرے گی اور پھر اللہ تعالیٰ کی مشیت ہو گی کہ چاہے تو عذاب دے اور چاہے تو معاف فرما دے۔ اور عورت کو اس بات پر شوہر سے اختلاف کا کوئی حق نہیں ہے کہ اس نے دوسری طرف سے شادی کر لی ہے۔ یہ تو صحیح ہے کہ سوتن پن کی غیرت سے کوئی بھی عورت محفوظ نہیں ہے، اس مسئلے سے امہات المومنین بھی دوچار تھیں، لیکن ان کی غیرت نے انہیں کسی باطل اور گناہ میں داخل نہیں کیا تھا۔ بہرحال اس عورت کو چاہئے کہ اپنے شوہر کے گھر لوٹ آئے۔ اور اس کے بھائی کو بھی چاہئے، اگر وہ اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے، کہ اپنی ہمشیرہ کو آمادہ کرے کہ وہ اپنے شوہر کے گھر چلی جائے، اوروہ اس کی اس نافرمانی میں اس کا مددگار نہ بنے۔
صحیح حدیث میں آیا ہے، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ عیہ وسلم نے فرمایا:
لَيْسَ مِنَّا مَنْ خَبَّبَ امْرَأَةً عَلَى زَوْجِهَا
’’وہ آدمی ہم سے نہیں ہے جو کسی عورت کو اس کے شوہر کے خلاف ابھارے۔‘‘ (سنن ابی داود،کتاب الادب،باب فیمن خبب مملوکا،حدیث:5170وکتاب الطلاق،باب فیمن خبب امراۃ،حدیث:2175ومسند احمد بن حنبل:397/2ومسند ابی ھریرۃ۔)
سو اس خاتون کو چاہئے کہ اپنے شوہر کے گھر لوٹ جائے۔ اگر یہ اس سے انکاری ہو تو یہ "ناشزہ (نافرمان) قرار پائے گی۔
اور آپ کو (شوہر کو) چاہئے کہ اس کا خرچہ بند کر دو، تاہم وہ قاضی کی طرف رجوع کر سکتی ہے۔ اگر قاضی نے اسے طلاق دے دی اور پھر کسی اور سے نکاح کیا تو (یقینا) ایک بڑی مصیبت میں پڑے گی۔ جبکہ اس نے ایک ایسی عدلت کی طرف رجوع کیا ہے جو اللہ کی نازل کردہ شریعت کے برخلاف فیصلے کرتے ہیں۔ خیال رہے کہ امام احمد رحمہ اللہ اجازت دیتے ہیں کہ بیوی کو حق ہے کہ عقد نکاح کے وقت شرط کر سکتی ہے کہ یہ شوہر اس پر دوسری عورت سے نکاح نہیں کرے گا۔ مگر جمہور ائمہ کرام اس شرط کو باطل قرار دیتے ہیں۔ بہرحال اگر اس نے شوہر سے اس بابت شرط کی ہو جیسے کہ امام احمد رحمہ اللہ کا مذہب ہے، تو اس سبب اسے حق ہو گا کہ اپنے شوہر سے علیحدگی کا مطالبہ کر سکتی ہے۔ مگر مسند احمد اور سنن میں یہ صورت مروی ہے، حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
أَيُّمَا امْرَأَةٍ سَأَلَتْ زَوْجَهَا الطَّلَاقَ غَيْرِ مَا بَأْسٍ فَحَرَامٌ عَلَيْهَا رَائِحَةُ الْجَنَّةِ (سنن ابی داود،کتاب الطلاق،باب فی الخلع،حدیث:2226وسنن الترمذی،کتاب الطلاق،باب ماجاءفی المختلفات،حدیث:1187وسنن ابن ماجہ،کتاب الطلاق،باب کراھیۃالخلع،حدیث:2055۔)
’’اگر کوئی عورت اپنے شوہر کے بغیر کسی واقعی سبب کے طلاق کا مطالبہ کرے تو اس پر جنت کی خوشبو حرام ہے۔‘‘
المختصر میری آپ کو (شوہر کو) یہ نصیحت ہے کہ اسے طلاق دے دو۔ چونکہ وہ "ناشزہ" پے اس لیے اگر اس پر کچھ تنگی کرو کہ وہ اپنے بعض حقوق سے دستبردار ہو جائے تو بھی جائز ہے۔ اور بجائے اس کے کہ وہ کسی باطل کی مرتکب ہو یا اس میں ملوث ہو، تم اسے اپنے سے جدا کر دو۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب