سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(799) عورت کی عدت بلحاظ حمل ساقط ہو سکتی ہے؟

  • 18406
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 744

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اگر حمل میں جنین فوت ہو جائے تو کیا ایسی عورت کی عدت بلحاظ حمل ساقط ہو جائے گی؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

حاملہ خاتون کے متعلق کتاب اللہ کے فرمان أَجَلُهُنَّ أَن يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ (الطلاق: 65/4) (ان کی مدت عدت یہ ہے کہ ان کا وضع حمل ہو جائے) سے ظاہر ہے کہ حاملہ عورت کی عدت وضع حمل ہی ہے۔ جس عورت کا حمل اس کے بطن سے زندہ یا مردہ نکل آیا ہو اس کی عدت پوری ہو جاتی ہے۔ اگر جنین پیٹ ہی میں رہے خواہ زندہ ہو یا مردہ اور امید ہو کہ خارج ہو جائے گا، تو عورت اس وقت تک کے لیے عدت میں رہے گی۔ اگر جنین فوت ہو جائے اور اس کے نکلنے کی کوئی توقع نہ ہو تو ایسی عورت کو اگر یہ کہا جائے کہ اس کے خارج ہو جانے تک تو عدت ہی میں ہے، بالخصوص جب کوئی توقع نہ ہو کہ وہ کب نکلے گا، تو اس میں عورت کے لیے ایک بڑا ضرر ہے۔ اس لیے معلوم ہوتا ہے کہ جب جنین کے فوت ہو جانے کا یقین ہو اور عورت کو اس کے نکلنے کی امید بھی نہ ہو تو اس کی عدت حمل کی عدت سے مختلف ہو گی۔ کیونکہ اس سے حمل کا حکم ساقط ہو چکا ہے۔

اور اس کی تائید اس حکمت سے بھی ہوتی ہے جس کے تحت حاملہ کو وضع حمل سے عدت پوری کرنے کا حکم دیا گیا ہے، یعنی دونوں شہروں کے نطفے مختلط نہ ہو جائیں اور کہیں بچے کے نسب میں کوئی شبہ نہ آ جائے، جو اس صورت مسئولہ میں نہیں ہے۔ اور مجھے یہی معلوم ہوتا ہے کہ ایسی عورت سے عدت بالکل ساقط ہے جیسے کہ باقی احکام میراث، استحقاق وصیت اور نفقہ وغیرہ ساقط ہو جائیں گے۔

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

احکام و مسائل، خواتین کا انسائیکلوپیڈیا

صفحہ نمبر 570

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ