السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
اگر مرد نے بیوی کو تین طلاقیں دی ہوں اور مفتی کہہ دے کہ یہ طلاق نہیں ہوئی، پھر شوہر نے مفتی کے کہنے پر بیوی کو اپنے پاس رکھا اور ملاپ کرتا رہا، اور ایک بچے کی ولادت ہو گئی، تو کسی نے کہہ دیا کہ یہ بچہ ولد الزنا ہے۔ اس کا کیا حکم ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
جس نے ایسے کہا ہے، وہ انتہائی جاہل اور گمراہ اور اللہ اور اس کے رسول کا مخالف ہے۔ مسلمانوں کا اجماع ہے کہ ہروہ نکاح جس کے بارے میں شوہر کا یہ عقیدہ ہو کہ یہ عقد جائز ہے، اور اس پر وہ بیوی سے ملاپ کرتا ہے، تو بچہ اس مرد ہی سے منسوب ہو گا اور وہ ایک دوسرے کے وارث بھی ہوں گے، خواہ حقیقت میں ان کا یہ نکاح باطل ہی کیوں نہ ہو، یہ نکاح کرنے والے کافر ہوں یا مسلمان، حکم ایک ہی ہے اور مسلمانوں کااس پر اجماع ہے۔
مثلا کوئی یہودی اگر اپنی بھتیجی سے نکاح کرے تو بچہ اس آدمی ہی کی طرف منسوب ہو گا، اور وہ ایک دوسرے کے وارث بھی ہوں گے، مسلمانوں کااس پر اجماع ہے، اور اس پر بھی اجماع ہے کہ یہ نکاح باطل ہے، اور جو کوئی اسے حلال جانے وہ کافر ہو گا، واجب ہے کہ اس سے توبہ کرائی جائے۔ ایسے ہی اگر کوئی جاہل مسلمان کسی عورت سے اس کی عدت کے دوران میں نکاح کر لے جیسے کہ عام طور پر بدوی لوگ کر لیتے ہیں، اور پھر اس کا عورت سے ملاپ ہو اس یقین و اعتماد سے کہ یہ اس کی بیوی ہی ہے، تو بچہ اس آدمی سے منسوب ہو گا اور اس کا وارث بھی ہو گا، مسلمانوں کا اس پر اتفاق ہے، اور اس کی مثالیں بہت ہیں۔
خیال رہے کہ "ثبوت نسب" کے لیے ضروری نہیں ہے کہ نکاح بھی فی الواقع صحیح ہو۔ بلکہ بچہ صاحب فراش کا ہوتا ہے (بستر والے کا)۔ جیسے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
الْوَلَدُ لِلْفِرَاشِ وَلِلْعَاهِرِ الْحَجَرُ (صحیح بخاری،کتاب البیوع،باب تفسیر المشبھات،حدیث:1948وصحیح مسلم،کتاب الرضاع،باب الولد للفراش وتوفی الشبھات،حدیث:1457وسنن ابی داود،کتاب الطلاق،باب الولد للفراش،حدیث:2273۔)
’’بچہ بستر والے کاہے اور زانی کے لیے پتھر ہیں۔‘‘
سو جس آدمی نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دی ہوں، اور پھر وہ اس سے ملاپ کرے، اس اعتقاد سے کہ طلاق نہیں ہوئی، یہ عمل جہالت سے کیا ہو یا کسی مفتی کے غلط فتویٰ کی وجہ سے، اور شوہر نے اسے صحیح سمجھا ہو، یا کوئی اور بھی سبب ہو، تو بچہ اس آدمی ہی سے لاحق ہو گا، یہ دونوں آپس میں وارث بھی ہوں گے۔ اور یہ عورت اپنی عدت اسی وقت سے شمار کرے گی جب وہ آدمی اس سے مباشرت ترک کرے گا، کیونکہ اس کا مباشرت کرنا اسی یقین کے تحت ہے کہ یہ عورت اس کی بیوی ہے، تو یہ اس کا فراش ہوئی، لہذا یہ اسی وقت سے عدت گزارے گی جب اس آدمی کے بستر سے علیحدہ ہو گی۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب