السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک آدمی کا اپنی بیوی سے جھگڑا ہوا، تو اس نے چاہا کہ کہے اسے ایک طلاق ہے، مگر جلدی میں اس کی زبان سے نکل گیا ’’تین‘‘ حالانکہ اس کی نیت نہیں تھی۔ اس کا کیا حکم ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اگر اس آدمی سے سبقت لسانی سے بلا ارادہ "تین طلاق" کا لفظ نکل گیا ہے، تو اس سے ایک ہی طلاق واقع ہو گی، کیونکہ اس کا ارادہ ایک کا تھا۔ اسی طرح اگر سبقت لسانی سے یہ لفظ ادا ہو جاتا ہے، مثلا وہ اسے ’’طاہر‘‘ کہنا چاہ رہا تھا او ’’طالق‘‘ کہہ گیا، تو اس بندے اور للہ کے درمیان طلاق نہیں ہو گی۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب