سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(789) انتہائی جاہل شوہر کے ساتھ گزارہ نہ ہو تو طلاق طلب کرنا

  • 18396
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 921

سوال

(789) انتہائی جاہل شوہر کے ساتھ گزارہ نہ ہو تو طلاق طلب کرنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

جب شوہر کے ساتھ گزارہ کرنا مشکل بلکہ محال ہو جائے تو طلاق کا مطالبہ کرنا کیساہے؟ میرا شوہر انتہائی جاہل ہے، میرے حقوق بالکل نہیں جانتا۔ وہ پہلے بھی مجھے اور میرے ماں باپ کولعن طعن کرتا رہتا تھا، مجھے یہودیہ، نصرانیہ، رافضیہ وغیرہ کہا کرتا تھا، مگر میں اپنے بچوں کی وجہ سے اس کے ان قبیح اخلاق پر صابر رہی اور اب مجھے جوڑوں کا درد شروع ہو گیا ہے، میں بہت عاجز آ گئی ہوں اور صبر بھی نہیں رہا ہے۔ میں اسے انتہائی ناپسند کرتی ہوں کہ اس کے ساتھ بات تک نہیں کر سکتی ہوں۔ میں نے اس سے طلاق کا مطالبہ کیا تواس نے انکار کر دیا۔ میں تقریبا چھ سال سے اس کے گھر میں اپنے بچوں کے ساتھ ہوں اور میری حالت مطلقہ یا اجنبیہ کی سی ہے، اور وہ طلاق دینے سے انکاری ہے۔ براہ مہربانی میرے سوال کا جواب مرحمت فرمائیں۔ اللہ کریم آپ کی حفاظت فرمائے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اگر شوہر کی حالت فی الواقع ایسے ہی ہے جیسے کہ آپ نے بیان کی ہے تو طلاق طلب کر لینے میں کوئی حرج نہیں، بلکہ اگر اس مقصد کے لیے کوئی عوض اور بدلہ دینا پڑے تو بھی کوئی حرج نہیں، کیونکہ وہ بد معاملہ اور بد کلامی کے ساتھ آپ پر ظلم کرتا ہے۔ اگر آپ کے لیے ممکن ہو کہ صبر کر سکو اور کوئی نصیحت کی بات کہہ سکو اور اس کے لیے ہدایت کی دعا بھی کرو تو آپ کے لیے اس میں اجر اور اچھا انجام ہے، کیونکہ آپ اپنی ذات اور بچوں کے اخراجات کے سلسلے میں اس کی یقینا ضرورت ہو گی۔

ہماری دعا ہے کہ اللہ اسے ہدایت اور استقامت دے، اور یہ سب اس صورت میں ہے کہ اگر وہ نماز پڑھتا اور دین کو گالی نہ دیتا ہو، ورنہ تو وہ کافر ہے، آپ کے لیے اس کے ساتھ رہنا جائز نہیں ہے اور نہ ہی تم اسے اپنے نفس پر کوئی موقع دو۔ کیونکہ دین اسلام کو گالی دینا، اس کا مذاق اڑانا، کفر و ضلالت اور ارتداد ہے، اور اس پر اہل اسلام کا اجماع ہے۔ اللہ عزوجل کا فرمان ہے:

﴿قُل أَبِاللَّهِ وَءايـٰتِهِ وَرَسولِهِ كُنتُم تَستَهزِءونَ ﴿٦٥ لا تَعتَذِروا قَد كَفَرتُم بَعدَ إيمـٰنِكُم ... ﴿٦٦﴾... سورةالتوبة

’’منافقین سے کہہ دیجیے: کیا بھلا تم اللہ تعالیٰ، اس کی آیات اور اس کے رسول سے ٹھٹھا کرتے ہو؟ کسی عذر معذرت کی ضرورت نہیں، تم ایمان لانے کے بعد کافر ہو چکے ہو۔‘‘

اور ترک صلاۃ کفر اکبر ہے، خواہ وہ اس کے وجوب کا انکاری نہ بھی ہو اور محض تارک نماز ہو تو بھی یہ کفر اکبر ہے۔" علمائے کرام کا صحیح تر قول یہی ہے۔ صحیح مسلم میں حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

بَيْنَ الرَّجُلِ وَبَيْنَ الْكُفْرِ وَالشِّرْكِ تَرْكُ الصَّلَاةِ

’’بندے اور کفر و شرک کے درمیان نماز چھوڑنے کا فاصلہ ہے۔‘‘

مسند احمد اور سنن میں ہے، حضرت بریدہ بن حصیب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

العهد الذي بيننا وبينهم الصلاة، فمن تركها فقد كفر

’’ہمارے اور ان کافروں کے درمیان نماز ہی کا عہد ہے۔ جس نے اسے چھوڑ دیا وہ کافر ہوا۔‘‘ (سنن الترمذی،کتاب الایمان،باب ترک الصلاۃ،حدیث:2621وسنن النسائی،کتاب الصلاۃ،باب الحکم فی تارک الصلاۃ،حدیث:463وسنن ابن ماجہ،کتاب اقامۃالصلاۃوالسنۃفیھا،باب ماجاءفیمن ترک الصلاۃ،حدیث:1079۔)

علاوہ ازیں اور بھی کئی دلائل ہیں اور کتاب و سنت سے یہی ثابت ہے۔

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

احکام و مسائل، خواتین کا انسائیکلوپیڈیا

صفحہ نمبر 565

محدث فتویٰ

تبصرے