السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
اگر کوئی آدمی اپنی بیوی پر طلاق کی قسم اٹھا لے اور وہ حیض سے ہو تو کیا طلاق ہو جائے گی؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اگر آدمی نے بیوی کے حالت حیض میں ہوتے ہوئے اس پر طلاق کی قسم کھا لی ہو، اور یوں کہے کہ تجھے طلاق، تو ائمہ اربعہ کے قول کے بموجب طلاق و جاتی ہے، اور یہ آدمی گناہگار ہو گا کہ اس نے اس کو حالت حیض میں طلاق دی ہے۔ امام ابن حزم رحمہ اللہ اس طرف گئے ہیں کہ یہ طلاق نہیں ہوئی، اور شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اور ان کے تلمیذ رشید ابن القیم رحمہ اللہ نے اسی (ابن حزم رحمہ اللہ) کے قول کو ترجیح دی ہے۔ لیکن جو شخص اس مسئلہ کی تفصیلات دیکھنا چاہتا ہے اسے چاہئے کہ علامہ ناصر الدین الالبانی رحمہ اللہ کی عظیم الشان تالیف "ارواء الغلیل" کا مراجعہ کرے۔ اس میں انہوں نے شاندار بحث کی ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ اس میں اختلاف ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی کو جبکہ وہ حیض سے تھی، طلاق دے دی۔ تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کیا، تو آپ غصے ہوئے اور ان سے فرمایا:
’’اسے کہو کہ اس کی طرف رجوع کرے، حتی کہ اسے حیض آئے، پھو پاک ہو، پھر حیض آئے، پھر پاک ہو، تب اگر طلاق دینا چاہتا ہو تو اس سے مساس نہ کرے۔‘‘ (صحیح بخاری،کتاب التفسیر،سورۃالطلاق،حدیث:4908صحیح مسلم،کتاب الطلاق،باب تحریم طلاق الھائض،حدیث:1471۔)
یہ حدیث صحیح میں مروی ہے۔ اور صحیح بخاری میں یہ اضافہ بھی ہے، ابن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ’اور طلاق مجھ پر شمار کی گئی‘‘ اور یہ شمار کرنے والے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہی تھے۔ مصطلح الحدیث میں ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جب یوں کہتے ہیں كنا نفعل كذا على عهد النبى صلى الله عليه وسلم ’’ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں یوں یوں کیا کرتے تھے‘‘ تو اس کا حکم مرفوع کا ہے۔ اگرچہ اس میں بعض نے اختلاف بھی کیا ہے اور کہتے ہیں کہ شرط یہ ہے کہ "اس فعل سے نبی علیہ السلام آگاہ بھی ہوئے ہوں۔" مگر اس حدیث میں یہ سوال نہیں اٹھایا جا سکتا، کیونکہ یہ مسئلہ تو آپ پر پیش کیا گیا تھا اور آپ نے ابن عمر رضی اللہ عنہکو حکم دیا تھا کہ رجوع کریں، اور اس کیفیت بھی واضح فرمائی۔ اور ابن عمر رضی اللہ عنہ کا یہ کہنا کہ ’’مجھ پر طلاق شمار کی گئی‘‘ یقینا اس کے شمار کرنے والے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہی تھے۔ اور اس حدیث کی ایک روایت میں یہ ہے، کہ آپ نے فرمایا: هى واحده ’’یہ ایک طلاق ہے۔‘‘ (سنن الدارقطنی:10/4،حدیث:27۔) اور اس حدیث کی سند صحیح ہے، اور اس لفظ کو کلام نافع یا عبداللہ بن وہب کا ادراج بتانا صحیح نہیں اور ادراج کے دعویٰ میں بہت وسعت ہے۔
اور صحیح یہی ہے کہ یہ مرفوع ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی نے فرمایا کہ یہ ایک ہے، اور اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کا کلام ہونا چاہئے۔ بلکہ یہ بھی روایت ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا "کیا یہ طلاق شمار ہو گی؟" فرمایا: "ہاں" یہ روایت صریح ہے کہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہی تھے جنہوں نے اسے طلاق شمار فرمایا۔ ابن عمر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دیں جبکہ وہ حیض سے تھی، تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: "تو نے اپنے رب کی نافرمانی کی اور بیوی تجھ سے جاتی رہی۔" (السنن الکبری للبیھقی:334/7،حدیث:14733المعجم الاوسط للطبرانی:81/8،حدیث:8029۔) اگر کوئی یہ کہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ابن عمر رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا کہ اپنی بیوی کی طرف رجوع کر لے، تو اس میں ابن عمر رضی اللہ عنہ کی وضاحت موجود ہے کہ آپ نے اس کی طرف رجوع کیا تھا اس طلاق میں جو اس کی باقی رہتی تھی۔ مگر آپ کے لیے (سائل سے کہا) کچھ باقی نہیں رہا ہے جس میں آپ اپنی بیوی کی طرف رجوع کر لیں۔
دیگر حضرات کا اعتراض ہے کہ مسند احمد اور ابی داؤد میں مروی ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ "آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیوی کو مجھ پر لوٹا دیا اور طلاق کو کچھ شمار نہ کیا۔" (سنن ابی داود،کتاب الطلاق،باب فی طلاق السنۃ،حدیث:2185ومسند احمد بن حنبل:80/2،حدیث:5524۔) جبکہ قصد ایک ہے اور الفاظ بظاہر مختلف ہیں، تو اس میں جمع و تطبیق کی جائے گی (یا ترجیح دی جائے گی) اور علامہ ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے یہ تطبیق دینے کی کوشش کی ہے کہ "آپ نے بیوی کو لوٹا دیا اور اس انداز طلاق کو درست اور صحیح قرار نہیں دیا، کیونکہ یہ خلاف سنت تھا۔" چنانچہ وہ اس روایت کی تاویل کرتے ہیں۔
مگر پہلی روایت کی کوئی تاویل نہیں ہو سکتی، اور اس طرح سے تطبیق مشکل ہے۔ اور ترجیح ان ہی روایات کو ہے جن میں ہے کہ ان کی وہ طلاق شمار کی گئی تھی۔ کیونکہ اس کے روایت کرنے والے تعداد میں زیادہ اور حفظ و اتقان میں فائق ہیں۔
الغرض ائمہ اربعہ کے نزدیک اگر کوئی اپنی بیوی کو ایام حیض میں طلاق دے دے تو وہ طلاق شمار ہوتی ہے، جیسے کہ میں نے وضاحت سے بیان کیا ہے۔ اور اگر طلاق معلق ہو تو بھی ہو جاتی ہے۔ جب صریح طلاق ہو جاتی ہے تو بطریق اولیٰ ہو جاتی ہے۔
بہت سے لوگ طلاق کی قسم اٹھا لیتے ہیں، پھر کہتے ہیں کہ میں غضبناک ہو رہا تھا، تو یہ طلاق بولنے کا سبب بھی تو تجھ ہی میں تھا۔
اگر اس نے یوں کہا ہو ’’مجھ پر طلاق ہو، تو نہیں نکلے گی۔‘‘ یہ حلف یا لفظ چونکہ کوئی زیادہ صریح نہیں ہے، اس میں نیت کی طرف رجوع ہو گا۔ اگر وہ کہے کہ میرا مقصد یہی تھا کہ میں اپنے آپ پر لازم کر لوں، یا اسے پابند کروں کہ یوں یوں کرے، تو یہ قسم ہے، اس سے طلاق نہیں ہو گی۔ ہاں اگر مشروط ثابت ہو جائے تو طلاق ہو جائے گی۔
تو اس صورت میں یہ ہے کہ اپنی قسم کا کفارہ دینے کے لیے دس مسکینوں کو کھانا کھلائے یا انہیں لباس مہیا کرے۔ اگر اس سے بھی عاجز ہو تو تین روزے رکھے۔ جمہور کا یہی مذہب ہے، اور شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے بھی اسے ہی ترجیح دی ہے۔
اور اگر شوہرنے بحالت غضب اسے طلاق دی ہو، اور غصہ بھی اس قدر ہو کہ اس کی وجہ سے وہاپنے شعور میں نہ رہا ہو کہ کیا کہہ رہا ہے، تو بالاتفاق طلاق نہیں ہو گی۔ کیونکہ مسند احمد، ابوداؤد اور ابن ماجہ میں مروی ہے، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اغلاق میں کوئی طلاق نہیں اور نہ آزاد کرنا ہے۔‘‘ (سنن ابی داود،کتاب الطلاق،باب فی الطلاق علی غلط،حدیث:2193وسنن ابن ماجہ،کتاب الطلاق،باب طلاق المکرۃ،حدیث:20446ومسند احمد بن حنبل:276/6ومسند عائشۃ۔) اغلاق کے معنی اگرچہ کچھ علماء نے اکراہ بھی کیے ہیں، مگر امام ابوداؤد رحمہ اللہ فرماتے ہیں اغلاق سے مراد غیظ و غضب ہے۔ اور کئی علمائے لغت نے یہی کہا ہے، اور وہ کہتے ہیں اغلاق اصل میں تنگی کو کہتے ہیں۔ گویا بولنے والا اپنے اوپر یا اس کا دل اس پر تنگی کرتا ہے اور اسے خبر ہی نہیں ہوتی کہ کیا کہہ رہا ہے۔ اور اگر غصہ اس قدر نہ ہو تو سوائے امام ابن القیم رحمہ اللہ کے، اکثریت اس طرف ہے کہ طلاق ہو جائے گی۔ اور اگر کہا جائے کہ اغلاق کے معنی اکرام، جنون اور نشہ کے ہیں، تو غصہ بھی اس کے مشابہ ہے، یعنی اسے کچھ ہوش نہیں ہوتا اور کچھ خبر نہیں ہوتی کہ کیا بول رہا ہے۔ اور اکثر کے نزدیک طلاق ہو جائے گی۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب