سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(782) گھر سے باہر نکلنے کو طلاق کے ساتھ معلق کرنا

  • 18389
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 739

سوال

(782) گھر سے باہر نکلنے کو طلاق کے ساتھ معلق کرنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

(ایک لڑکی کا سوال ہے کہ) مجھے میرے منگیتر نے کہا کہ اگو تو میری اجازت کے بغیر، اپنے کام پر جانے کے علاوہ، کہیں بھی گئی تو تو میرے لیے قیامت تک کے لیے حرام ہو گی، اور اب میں اپنے گھر میں محبوس ہوں۔ حالانکہ میرے گھر والوں کو بہت سے گھریلو امور سر انجام دینے کے لیے میرے باہر جانے کی اشد ضرورت ہے اور میں نہیں جا سکتی ہوں۔ اور جب کسی وقت میں نے اجازت لینے کی کوشش کی ہے تو اس نے انکار کر دیا ہے۔ اس طرح کے معاملات میں شریعت کا کیا حکم ہے؟ کیا اگر میں اس کی اجازت کے بغیر باہر چلی جاؤں تو اس کا میرے ساتھ ارتباط حرام ہو جائے گا؟ میں اس کی اس قسم کے بارے میں کیا کروں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

میرا آپ کو خیر خواہانہ مشورہ یہ ہے کہ اس آدمی کو چھوڑ دیں، یہ تمہیں بہت اذیت دے گا۔ میں کہوں گا کہ اس کے بجائے کوئی اور شوہر تلاش کر لیں۔ تاہم فقہی اعتبار سے اس سوال کا جواب یہ ہے کہ اگر کوئی آدمی یوں کہہ دے کہ "اگر میں نے فلاں عورت سے شادی کی تو اسے طلاق" اہل علم کا اس میں اختلاف ہے۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ اس کا حکم عام ہے اور طلاق واقع ہو جائے گی۔ امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اگر آدمی نے متعین طور پر یہ بات کہی ہو کہ اگر میں نے فلاں قبیلے کی عورت یا فلاں آدمی کی بیٹی سے نکاح کیا تو اُسے طلاق، تو اسے طلاق ہو جائے گی۔ امام احمد، امام شافعی اور اہل ظاہر رحمہم اللہ کہتے ہیں، اور ان حضرات کا قول ہی حق ہے، کہ اس طرح سے یہ طلاق واقع نہیں ہو گی، نہ مطلق (اور عام) اور نہ مقید (اور خاص)۔ کیونکہ مسند احمد اور اصحاب سنن کے ہاں بسند حسن فی ذاتہ صحیح لغیرہ مروی ہے، جناب عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہ عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

لا نذر لابن آدم فيما لا يملك ولا عتق له فيما لا يملك ولا طلاق له فيما لا يملك

’’ابن آدم جس چیز کا مالک نہ ہو اس کے لیے اس میں کوئی نذر نہیں۔ جس کا وہ مالک نہ ہو، اس کے لیے اس میں کوئی آزادی نہیں (یعنی وہ اسے آزاد نہیں کر سکتا)۔ اور جس (عورت) کا وہ مالک نہ ہو اس کے لیے کوئی طلاق نہیں۔‘‘ (سنن ابی داود،کتاب الطلاق،باب فی الطلاق قبل النکاح،حدیث:2190وسنن الترمذی،کتاب الطلاق،باب ماجاءلاطلاق قبل النکاح،حدیث:1181ومسند احمد بن حنبل:190/2۔)

سنن ابن ماجہ میں بسند صحیح حضرت مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

لا طلاق قبل نكاح ولا عتق قبل ملك

’’نکاح سے پہلے کوئی طلاق نہیں۔ ملکیت سے پہلے کوئی آزادی نہیں۔‘‘(السنن الکبری للبیھقی:319/7،حدیث:14657۔)

امام حاکم رحمہ اللہ نے بھی کئی صحابہ سے اس معنی کی احادیث روایت کی ہیں۔ اگرچہ امام حاکم کی روایات میں ضعف ہے لیکن سیدہ عائشہ، ابن عمرو، ابن عباس اور جابر رضی اللہ عنہم کی روایات اور ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی روایت جو وہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے نقل کرتے ہیں، اور یہ روایت جو بیہقی میں مروی ہے، ان سب سے اس ضعف کا قدرے ازالہ ہو جاتا ہے۔

تو اس طرح یہ طلاق نہیں ہو گی۔ لیکن اگر اس نے یہ بات حلف اور قسم کے معنی میں کی ہو تو اگر یہ عورت اس آدمی کی اجازت کے بغیر نکلے اور اسے خبر ہو جائے تو آپ سے شادی کے بعد اس پر قسم کا کفارہ ہو گا، اور اگر اس کے علم میں نہ آئے تو کچھ واجب نہ ہو گا۔

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

احکام و مسائل، خواتین کا انسائیکلوپیڈیا

صفحہ نمبر 559

محدث فتویٰ

تبصرے