السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک شوہر نے اپنی بیوی سے ملاپ کرنا چاہا، مگر اس نے انکار کر دیا، اور وہ ان دنوں حمل سے تھی، شوہر اس کے انکار سے اس قدر دل برداشتہ ہوا کہ اس نے قسم اٹھائی کہ ولادت کے بعد بھی میں اس سے ملاپ نہیں کروں گا، تو کیا اس صورت میں طلاق ہو جائے گی؟ اور کیا وہ سبب بھی جو اس قسم کا باعث ہوا تھا، دیکھا جائے گا یا نہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اگر شوہر نے بیوی کے ساتھ اس کے ہاں ولادت کے بعد ملاپ کیا ہو تو اس کی نیت اور اس کی قسم کا سبب بھی دیکھا جائے گا۔ اگر اس نے کسی سبب کے تحت قسم اٹھائی ہو اور پھر وہ سبب زائل ہو گیا ہو تو اس کی قسم نہیں ٹوٹی۔ علماء کے اقوال میں سے یہی بات زیادہ ظاہر ہے۔
اگر کسی نے کسی خاص سبب کی وجہ سے قسم اٹھائی ہو، مثلا یوں قسم اٹھائے کہ میں فلاں شہر میں داخل نہیں ہوں گا، اور اس قسم کی وجہ کوئی ظلم ہو جو اس نے وہاں دیکھا ہو، پھر وہ ظلم زائل ہو جائے، یا یوں کہے کہ میں فلاں فاسق سے بات نہیں کروں گا، پھر اس کا فسق زائل ہو جائے، اس طرح کی قسموں میں مذہب امام احمد وغیرہ میں دو قول ہیں، اور زیادہ ظاہر یہ ہے کہ قسم نہیں ٹوٹے گی۔ کیونکہ قسم میں کسی کام کرنے کی رغبت یا اس سے باز رہنا گویا معنوی طور پر امر یا نہی کے معنی میں ہوتا ہے۔ جو آدمی اپنے اوپر کوئی قسم ڈال لیتا ہے، گویا وہ اپنے آپ کو اس کام کے کرنے سے منع کر رہا ہے۔ جیسے کوئی کہے کہ میں فلاں شہر میں داخل نہیں ہوں گا، یا فلاں شخص سے بات نہیں کروں گا کسی خاص سبب کی وجہ سے۔ پھر وہ سبب دور ہو جائے تو جس سے اپنے آپ کو روکا تھا وہ زائل ہو گیا۔ مثلا ایک آدمی دوسرے کو سلام میں پہل نہیں کرتا، کیونکہ وہ کافر ہے، پھر وہ مسلمان ہو جائے، یا کہے کہ میں شہر میں داخل نہیں ہوں گا، کیونکہ وہ دارالحرب ہے۔ پھر وہ دارالسلام بن جائے، وغیرہ مثالوں میں جب کوئی حکم کسی علت کی وجہ سے لازم آ رہا ہو اور پھر وہ علت نہ رہے تو وہ حکم بھی نہیں رہے گا۔
اگر اس آدمی نے قسم اٹھائی تھی کہ وہ بیوی سے سزا کے طور پر ملاپ نہیں کرے گا کیونکہ وہ ٹال مٹول اور سرکشی کا انداز اپناتی تھی، تو جب عورت نے اپنے انداز سے توبہ کر لی اور شوہر کی مطیع فرمان ہو گئی تو وہ سبب زائل ہو گیا جس کی وجہ سے اس نے بیوی سے علیحدہ رہنے کی قسم اٹھائی تھی، جیسے کہ اگر کوئی بیوی کے سرکش ہونے کی وجہ سے علیحدگی کا عزم کر لے، اور پھر یہ سبب نہ رہے (تو حکم بھی نہ رہے گا)۔
لیکن اگر شوہر کی نیت یہ تھی کہ وہ ہمیشہ کے لیے بیوی سے ملاپ نہیں کرے گا اس سبب سے جس کا سوال میں ذکر ہوا ہے، پھر وہ توبہ کر لے یا نہ بھی کرے مگر اسے علم ہو کہ وہ پختہ طور پر توبہ کر کے اپنی اصلاح کر لے گی، مگر وہ اس کی سابقہ غلطی کی سزا دینا چاہتا ہو، جیسے کہ بعض اوقات آدمی کسی دوسرے کو اس کی غلطی کی سزا دینا چاہتا ہے، اس لیے نہیں کہ وہ آندہ کے لیے محتاط رہے بلکہ اس غرض سے سزا دینا چاہتا ہے کہ اپنا غصۃ ٹھنڈا کرے تو یہ ایک دوسری نوعیت ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب