سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(773) رخصتی سے پہلے بیٹی کے باپ کا طلاق طلب کرنا

  • 18380
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 711

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک آدمی نے اپنی بیٹی کا نکاح جو طلاق یافتہ تھی، ایک آدمی سے کر دیا۔ نکاح کو تقریبا چالیس دن ہی ہوئے تھے اور ابھی رخصتی نہیں ہوئی تھی کہ باپ نے اس شوہر سے کہنا شروع کر دیا کہ میری بیٹی کو طلاق دے دے۔ بلکہ اس حد تک اصرار کیا کہ طلاق بتہ دے جس میں رجوع نہ ہو۔ اس کے سامنے کسی اور کو کچھ کہنے کی ہمت نہ تھی۔ بالآخر شوہر نے باپ کی دھمکیوں اور عدالتوں کے چکروں کی وجہ سے مجبور ہو کر لڑکی کو طلاق دے دی۔ سوال یہ ہے کہ کیا باپ کو یہ حق حاصل ہے؟ اور کیا اس طرح سے دی ہوئی طلاق ہو جاتی ہے جبکہ وہ اسے بیوی بنا کر رکھنا چاہتا ہے اور بیوی بھی اس کے پاس رہنا چاہتی ہے؟ مزید یہ کہ وہ اس سے پہلے طلاق یافتہ بھی ہے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

باپ کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ اپنی بیٹی کے شوہر کو مجبور کرے کہ وہ اس کی بیٹی کو طلاق دے دے، اور نہ ہی حق ہے کہ اپنی بیٹی کو مجبور کرے کہ وہ اپنے شوہر سے طلاق لے لے۔ وہ اسباب جن کے تحت کسی عورت کے لیے جائز ہوتا ہے کہ اپنے شوہر سے طلاق کا مطالبہ کرے وہ کچھ اس طرح ہیں، مثلا وہ (شوہر) اس کے حقوق ادا کرنے سے قاصر ہو مثلا طعام یا لازمی لباس یا رہائش مہیا کرنے سے عاجز ہو، یا جنون یا برص وغیرہ جیسے کسی موذی مرض میں مبتلا ہو کہ جس کی وجہ سے اکٹھے رہنا محال ہو اور اس وجہ سے آپس میں نفرت پیدا ہوتی ہو، بلکہ جنون میں تو عورت کو اپنی جان کا ڈر ہو سکتا ہے۔ ان اسباب کے تحت اگر وہ طلاق طلب کرے تو جائز ہے۔ اگر عورت کے مذکورہ بالا قسم کے اسباب کے علاوہ سے طلاق طلب کرے تو ایک بڑے کبیرہ گناہ کی مرتکب ہو گی۔ ابوداود، ترمذی، ابن ماجہ وغیرہ میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

ايما امراة سالت زوجها الطلاق بغير ما باس فحرام عليها رائحة الجنة

’جو عورت بغیر کسی خاص سبب کے اپنے شوہر سے طلاق کا مطالبہ کرے تو اس کے لیے جنت کی خوشبو حرام ہے۔ (سنن ابی داود،کتاب الطلاق،باب فی الخلع،حدیث:2226،سنن الترمذی،کتاب الطلاق،باب ماجاءفی المختلفات،حدیث:1187وسنن ابن ماجہ،کتاب الطلاق،باب کراھیة الخلع،حدیث:2055۔)

اگر کوئی اپنے والد یا والدہ کے کہنے سے طلاق کا مطالبہ کرے تو یہ بھی کبیرہ گناہ کی مرتکب بنتی ہے، اور شوہر کو چاہئے کہ ایسی عورت کو طلاق نہ دے بلکہ تادیب کرے۔ اسے حق حاصل ہے کہ اسے اپنے ماں باپ کے گھر جانے سے روک دے۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے کچھ اسی طرح فرمایا ہے، اور ان کا استدلال اسی حدیث سے ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

ليس منا من خبب امرأة على زوجها

’’جو شخص کسی عورت کو اس کے شوہر کے خلاف بھڑکائے، وہ ہم میں سے نہیں ہے۔‘‘ (سنن ابی داود،کتاب الادب،باب فیمن خبب مملوکا،حدیث:5170ومسند احمد بن حنبل:397/2مسند ابی ھریرۃ،المستدرک للحاکم:196/2۔)

اور رہا سوال کا دوسرا حصہ کہ کیا یہ طلاق ہو گئی ہے یا نہیں؟ ہاں یہ طلاق ہو گئی ہے۔ آپ کو چاہئے تھا کہ بیوی کے والد نے جو کہا تھا آپ اس سے انکار کر دیتے، بلکہ واجب تھا کہ اپنی بیوی کو اپنے پاس محفوظ رکھتے اور اس پر اصرار کرتے کیونکہ اس طرح اس کا نقصان ہوا ہے۔ بہرحال اب جبکہ آپ اپنی مرضی سے یا اس کی دھمکیوں میں آ کر یہ کر چکے ہیں تو طلاق ہو چکی ہے۔ اگر آپ کا اس سے ملاپ ہو چکا ہو تو اس کی عدت ختم ہونے سے پہلے پہلے آپ اس کیطرف رجوع کر سکتے ہیں۔ اور اگر آپ کا ملاپ نہیں ہوا تو وہ آپ سے جدا ہو چکی ہے۔ اور اگر دوبارہ آپ نے پیغام بھیجا ہے، اور آپ اس کے کفو ہوں اور وہ آپ سے نکاح میں رغبت بھی رکھتی ہو اور باپ انکار کرتا ہو تو ایسے باپ کی ولایت بالاجماع ساقط ہے، اور یہ حق ولایت بالترتیب دوسرے ولی کی طرف منتقل ہو جائے گا۔ اگر اس کا ایسا کوئی ولی نہ ہو تو جائز ہے کہ کوئی صاحب علم و فضیلت یا کوئی ہمسایہ وغیرہ بھی جو اس کے مصالح کا امین ہو اس کا ولی بن سکتا ہے۔

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

احکام و مسائل، خواتین کا انسائیکلوپیڈیا

صفحہ نمبر 554

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ