سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(770) تارکِ نماز شوہر کے ساتھ رہنا

  • 18377
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-06
  • مشاہدات : 833

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میرا شور نماز کا تارک ہے، اور ظاہر ہے کہ نماز کا تارک کافر ہے، مگر مجھے اس سے محبت بھی بہت ہے، ہماری اولاد بھی ہے، اور ہماری زندگی بہت اچھی گزر رہی ہے۔ میں نے اسے نماز کی پابندی کا بہت کہا ہے، مگر وہ ’’ہاں! دیکھوں گا، اللہ مجھے ہدایت دے‘‘ وغیرہ کہہ کر ٹال جاتا ہے۔ آپ کی نظر میں ایسے آدمی کے ساتھ تعلق رکھنا کیسا ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ہماری نظر میں شرعی طور پر ایسے شوہر کے ساتھ جو تارک صلوٰۃ ہو جبکہ بیوی بھی اسے کافر ہی سمجھتی ہے، اکٹھے رہنا جائز نہیں ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا إِذا جاءَكُمُ المُؤمِنـٰتُ مُهـٰجِر‌ٰتٍ فَامتَحِنوهُنَّ اللَّهُ أَعلَمُ بِإيمـٰنِهِنَّ فَإِن عَلِمتُموهُنَّ مُؤمِنـٰتٍ فَلا تَرجِعوهُنَّ إِلَى الكُفّارِ لا هُنَّ حِلٌّ لَهُم وَلا هُم يَحِلّونَ لَهُنَّ ... ﴿١٠﴾... سورةالممتحنة

’’اے مومنو! جب مومن عورتیں وطن چھوڑ کر تمہارے پاس آ جائیں تو ان کی آزمائش کر لو۔ اللہ ان کے ایمان کو خوب جانتا ہے۔ سو اگر تم کو معلوما ہو کہ یہ عورتیں مومن ہیں تو ان کو کافروں کے پاس مت بھیجو،یہ ان کے لیے حلال نہیں ہیں اور نہ وہ ان کو جائز ہیں۔‘‘

اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے واضح فرمایا ہے کہ صاحب ایمان عورتیں کافروں کے لیے حرام ہیں۔ لہذا اس خاتون پر واجب ہے کہ ایسے شوہر سے فورا علیحدہ ہو جائے، اس کے ساتھ زندگی نہ گزارے، نہ بستر میں اس کے ساتھ ملاپ کرے اور نہ اس کے علاوہ، کیونکہ یہ اس کے لیے حرام ہے۔

اور اس کا یہ کہنا کہ یہ اسے چاہتی اور اس سے محبت کرتی ہے، اور زندگی اس کے ساتھ بہت اچھی گزر رہی ہے، تو جب اسے یقین آ جائے گا کہ یہ آدمی اس کے لیے حرام ہے اور وہ اس کے لیے ایک اجنبی کی طرح ہے، بشرطیکہ وہ ترک نماز پر مصر ہو، تو اس کی چاہت اور محبت زائل ہو جائے گی۔ کیونکہ ایک صاحب ایمان کے لیے اللہ تعالیٰ کی محبت سب محبتوں سے اعلیٰ اور فائق ہوتی ہے۔ اس کے نزدیک اللہ کی شریعت ہر چیز سے بڑھ کر ہوتی ہے۔

اور ایسے ہی اولاد کا معاملہ ہے اگر وہ بے نماز ہے تو اسے اولاد کی نھی ولایت و سرپرستی کا کوئی حق نہیں ہے، کیونکہ اولاد کے ولی ہونے کے لیے شرط ہے کہ وہ مسلمان ہو، اور یہ شخص مسلمان نہیں ہے۔

لیکن میں اپنی آواز اس سائلہ خاتون کی آواز کے ساتھ ملا کر اس آدمی کو خیرخواہانہ طور پر کہتا ہوں کہ رشد و ہدایت اپنائے، دین کی طرف لوٹ آئے، مرتد ہونے اور کافر بننے سے باز رہے، نماز کی پابندی اختیار کرے اور اس طرح کامل طور پر اد اکرے جیسے کہ مطلوب ہے، علاوہ ازیں بھی اعمال صالحہ کثرت سے کرے۔ اگر اس کی نیت اور عزم صادق ہوا تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے آسانی فرما دے گا جیسے کہ اس نے فرمایا ہے:

﴿فَأَمّا مَن أَعطىٰ وَاتَّقىٰ ﴿٥ وَصَدَّقَ بِالحُسنىٰ ﴿٦ فَسَنُيَسِّرُهُ لِليُسرىٰ ﴿٧﴾... سورةالليل

’’اور جس نے خرچ کیا اور تقویٰ اپنایا اور نیکی کی تصدیق کی، تو ہم اس کو جلد ہی آسانی (کا گھر) مہیا کر دیں گے۔‘‘

میں اس شخص کو اس کی خیرخواہی میں کہتا ہوں کہ اللہ سے توبہ کر لے، تاکہ اس کی بیوی اس کے ساتھ رہے، اور اولاد بھی اس کی سرپرستی میں رہے، ورنہ اسے اپنی اس بیوی پر یا اولاد پر کوئی حق نہیں رہے گا۔

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

احکام و مسائل، خواتین کا انسائیکلوپیڈیا

صفحہ نمبر 550

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ