السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میری بیوی بظاہر ایک دیندار خاتون ہے، مگر میرے ساتھ بدزبان ہے اور بعض اوقات نماز کے معاملے میں غفلت کر جاتی ہے۔ اگر میں اسے اس بارے میں کچھ کہوں تو وہ اور زیادہ ڈھیل کرنے لگتی ہے۔ ایسی صورت میں اس جیسی عورت کے ساتھ میں کیا سلوک کروں، جبکہ میرے اس سے بچے بھی ہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
نماز کے بارے میں آپ کے لیے جائز نہیں ہے کہ اس کے غفلت کرنے پر اسے معاف کرو۔ اگر وہ اس میں اصرار کرتی ہے تو اسے اپنے سے جدا کر دو، خواہ آپ کے اس سے کتنے ہی بچے کیوں نہ ہوں۔
اور رہا معاملہ آپ کے ساتھ زبان دراز ہونے کا، اور اس سے اللہ کی پناہ۔ صحابہ میں سے ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اپنی بیوی کے متعلق بالکل یہی شکایت کی تھی، جیسے کہ مسند احمد اور ابوداؤد میں بسند صحیح آیا ہے کہ: جناب لقیط بن صبرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! میری بیوی ہے اور غلط زبان ہے۔ آپ نے فرمایا: ’’اسے طلاق دے دو۔‘‘ لقیط رضی اللہ عنہ کہتے ہیں، میں نے عرض کیا: میں اس کے ساتھ ایک وقت گزار چکا ہوں۔ اور بچے بھی ہیں۔‘‘ آپ نے فرمایا: ’’اسے کہو (یعنی نصیحت کرو)، اگر اس میں خیر ہوئی تو وہ قبول کر لے گی۔ اور اپنی بیوی کو ایسے مت مارو جیسے کہ اپنی لونڈی کو مارتے ہو۔‘‘ (سنن ابی داود،کتاب الطہارۃ،باب الاستنثار،ھدیث:142۔مسند ابی داود الطیالسی،ص:191،حدیث:1341۔)
امام شوکانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: اس حدیث میں دلیل ہے کہ انسان اپنی زبان دراز بیوی کو طلاق دے دے تو بہتر ہے، اور اگر مصلحت ہو تو اسے رکھ بھی سکتا ہے جیسے کہ اوپر کی حدیث میں آیا ہے۔ یہ نہیں ہے کہ اسے اپنے پاس رکھے بھی اور مارے بھی۔ اگر رکھے تو اس شرط سے کہ اس کے ساتھ حسن سلوک کرے۔ اگر کسی وقت مارنے کی ضرورت پڑے بھی تو شرعی انداز میں مار بھی سکتے ہیں، جیسے کہ قرآن حکیم میں ہے:
﴿وَالّـٰتى تَخافونَ نُشوزَهُنَّ فَعِظوهُنَّ وَاهجُروهُنَّ فِى المَضاجِعِ وَاضرِبوهُنَّ...﴿٣٤﴾... سورةالنساء
’’اور وہ عورتیں جن کے متعلق تمہیں اندیشہ ہو کہ وہ سرکشی (اور بد خوئی) کرنے لگی ہیں تو (پہلے) انہیں سمجھاؤ اور (اگر نہ سمجھیں تو) بستروں سے علیحدہ کر دو، اور (اس پر بھی وہ اپنی اصلاح نہ کریں تو) ان کو سزا دو۔‘‘
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(واضربوهن ضربا غير مبرح) (سنن الترمذی،کتاب الرضاع،باب حق المراۃعلی زوجھا،ھدیث:1163وسنن ابن ماجہ،کتاب النکاح،باب حق المراۃعلی زوجھا،حدیث:1851۔)
’’انہیں سزا دو، مگر سخت نہ ہو۔‘‘ مقصد یہ ہے تادیب ہونی چاہئے انتقام نہیں۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب