سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(762) زنا کا مرتکب ہونے سے طلاق کا ہونا

  • 18369
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 721

سوال

(762) زنا کا مرتکب ہونے سے طلاق کا ہونا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

بسا اوقات ہم سنتے ہیں کہ کچھ نوجوان ملک سے باہر چلے جاتے ہیں اور باوجودیکہ وہ شادی شدہ ہوتے ہیں بدکاری اور زنا کے مرتکب ہوتے ہیں۔ تو کیا اس سے ان کی بیویوں کو طلاق ہو جاتی ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مرد اگر بدکاری اور زنا کا مرتکب ہو تو اس سے اس کی بیوی کو طلاق نہیں ہو جاتی مگر ایسے آدمی پر واجب ہے کہ ایسے سفر اور اختلاط سے جس سے یہ نتیجہ نکلتا ہو، پرہیز کرے۔ اس پر فرض ہے کہ اللہ کا تقویٰ اختیار کرے، اور اسے یقین رکھنا چاہئے کہ اللہ اسے دیکھ رہا ہے، اور حرام کاری سے اپنی عصمت کو آلودہ نہ کرے۔ اللہ عزوجل کا فرمان ہے:

﴿وَلا تَقرَبُوا الزِّنىٰ إِنَّهُ كانَ فـٰحِشَةً وَساءَ سَبيلًا ﴿٣٢﴾... سورةالأسراء

’’زنا کے قریب بھی نہ پھٹکو، بلاشبہ یہ کام (ہمیشہ سے) بے حیائی اور بری راہ ہے۔‘‘

اور فرمایا:

﴿وَالَّذينَ لا يَدعونَ مَعَ اللَّهِ إِلـٰهًا ءاخَرَ وَلا يَقتُلونَ النَّفسَ الَّتى حَرَّمَ اللَّهُ إِلّا بِالحَقِّ وَلا يَزنونَ وَمَن يَفعَل ذ‌ٰلِكَ يَلقَ أَثامًا ﴿٦٨ يُضـٰعَف لَهُ العَذابُ يَومَ القِيـٰمَةِ وَيَخلُد فيهِ مُهانًا ﴿٦٩ إِلّا مَن تابَ وَءامَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صـٰلِحًا فَأُولـٰئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّـٔاتِهِم حَسَنـٰتٍ وَكانَ اللَّهُ غَفورًا رَحيمًا ﴿٧٠﴾... سورةالفرقان

’’اللہ کے بندے تو وہ ہیں جو اللہ کے ساتھ کسی اور معبود کو نہیں پکارتے، اور کسی ایسی جان کو قتل نہیں کرتے جسے اللہ نے حرام قرار دیا ہے، سوائے اس کے کہ حق ہو، اور نہ ہی زنا کاری کرتے ہیں، اور جس نے یہ کیا وہ اپنے اوپر سخت وبال لائے گا۔ ایسے شخص کے لیے قیامت کے دن عذاب دوگنا کیا جائے گا اور ذلت و رسوائی کے ساتھ اس میں ہمیشہ پڑا رہے گا۔ مگر جو توبہ کر لے، ایمان لے آئے اور عمل صالح کرے تو اللہ اس کے گناہوں کو نیکیوں سے بدل دے گا۔ اور اللہ بہت بخشنے والا رحم کرنے والا ہے۔‘‘

یہ عظیم آیات دلیل ہیں کہ زنا یا اس کے اسباب کے قریب جانا بھی حرام ہے۔ اور دوسری آیت کریمہ میں ان لوگوں کے لیے دوگنا عذاب اور ہمیشگی کی وعید ہے جو شرک کا مرتکب ہو، یا کسی کو ناحق قتل کرے، یا زنا میں ملوث ہو۔ اس میں یہ بھی ہے کہ زنا اکبر الکبائر گناہوں میں سے ہے جس کا انجام آگ اور اس میں ہمیشگی ہے۔ تاہم اس قدر ضرور ہے کہ بدکار اور قاتل اگر ان اعمال کو حلال نہ جانتے ہوں تو ان کی ہمیشگی دوزخ میں ایسی ہے جس کی ایک انتہا ہے۔ اہل السنۃ والجماعۃ کا یہی مذہب ہے، اور احادیث سے صحیح طور پر ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ:

’’زنا کار جب زنا کاری میں مشغول ہوتا ہے تو وہ ایمان دار نہیں ہوتا۔ چور جب چوری کر رہا ہوتا ہے تو وہ ایمان دار نہیں ہوتا۔ شراب نوش جب شراب پی رہا ہوتا ہے تو ایمان دار نہیں ہوتا۔‘‘ (صحیح بخاری،کتاب المحاربین من اھل الکفر والردۃ،باب اثم الزنا،حدیث:6425وصحیح مسلم،کتاب الایمان،باب بیان نقصان الایمان المعاصی،حدیث:57وسنن ابی داود،کتاب السنۃ،باب الدلیل علی زیادۃالایمان ونقصانہ،ھدیث:4689۔)

اس حدیث میں یہ وعید ہے کہ یہ مجرم اثنائے جرم میں ایمان سے خالی ہوتے ہیں۔ اور مراد یہ ہے کہ کمال ایمان جو واجب اور مطلوب ہے اس سے لوگ خالی ہوتے ہیں اور ان کی یہ کیفیت ہوتی ہے کہ ان کا ایمان کامل غائب ہوتا ہے، اللہ کا خوف کامل نہیں ہوتا اور نہ دل میں مستحضر ہوتا ہے، یہ لوگ فحش کاموں میں ملوث ہوتے ہیں، جن کا انجام بہت برا ہے۔

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

احکام و مسائل، خواتین کا انسائیکلوپیڈیا

صفحہ نمبر 545

محدث فتویٰ

تبصرے