سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(757) نیت کرنے سے طلاق نافذ ہو گی؟

  • 18364
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-27
  • مشاہدات : 820

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میں اپنے ملک مصر سے عراق کی طرف اس حال میں روانہ ہوا کہ میرے اور میری بیوی کے درمیان کچھ ناچاقی اور ناراضی تھی۔ میں اسے اس کے خاندان میں چھوڑ کر عراق چلا آیا۔ اور اس دوران میں میری نیت تھی کہ میں بیوی کو طلاق دے دوں گا۔ اور فی الواقع میں نے اپنے ایک عزیز کو اس مقصد کے لیے وکیل بھی بنا دیا۔ مگر بہت کچھ سوچ بچار اور تردد میں رہا کہ طلاق کا وکالت نامہ بھیجوں یا نہ بھیجوں اور اس طرح دو سال گزر گئے ہیں۔ تو کیا اس کیفیت میں میری بیوی کو طلاق ہو گئی ہے؟ جب کہ میری صرف نیت ہی تھی کہ میں اسے طلاق دے دوں گا۔ اور دوسرے یہ کہ اگر جب میں مصر لوٹوں اور بیوی کی طرف رجوع کرنا چاہوں تو کیا پہلے اسے طلاق دوں اور پھر رجوع کروں یا یہ نیت نافذ ہی نہیں ہے کیونکہ میں ان دنوں اس سے غصے میں تھا؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

انسان کو کو اپنے تمام امور میں جو وہ سر انجام دینا چاہتا ہو سمجھ داری اور دانائی سے کام لینا چاہئے، بالخصوص طلاق جیسے امور میں، جو انتہائی حساس معاملہ ہے، آدمی کو نتائج پر نظر رکھنی چاہئے کہ اگر یہ کام ہو گیا تو کیا ہو گا۔

سائل نے بتایا ہے کہ اس نے عزم کیا تھا کہ وہ بیوی کو طلاق دینے کے لیے ایک وکیل بنائے گا۔ اس طرح کے عزم اور نیت سے طلاق واقع نہیں ہوتی ہے، خواہ وہ کتنی ہی پختہ کیوں نہ ہو۔ کیونکہ طلاق ہمیشہ الفاظ سے ہوتی ہے، شوہر بولے یا اس کا وکیل۔ اور سائل کے سوال کے مطابق اس شوہر نے اور اس کے وکیل نے طلاق کے کوئی لفظ نہیں بولے ہیں۔ لہذا بیوی شوہر کی عصمت میں باقی ہے، اور اس کی قطعا کوئی ضرورت نہیں ہے کہ اپنے وطن مصر لوٹنے کے بعد وہ اسے طلاق دے۔ کیونکہ طلاق دینے کا سبب کچھ غلط فہمی اور ناراضی تھی جو اب زائل ہو چکی ہے۔ بیوی علیٰ حالہا اس کی عصمت میں ہے۔

اور مسئلہ ایسے ہی ہے کہ اگر کسی نے اپنی بیوی کو طلاق دینے کی نیت کی ہو مگر کوئی لفظ نہ بولے ہوں یا تحریر نہ لکھی ہو تو طلاق نہیں ہوتی۔

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

احکام و مسائل، خواتین کا انسائیکلوپیڈیا

صفحہ نمبر 542

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ