السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک آدمی نے اپنی بیوی کو رخصتی سے پہلے ہی طلاق دے دی اور پھر وہ شہر کے نکاح رجسٹرار کے پاس گیا، تو اس نے گواہوں یا ولی کے بغیر ہی عورت کو اس آدمی کے ساتھ روانہ کر دیا اور پھر وہ اس عورت کے ساتھ رہنے لگا، حتیٰ کہ ایک لڑکا بھی ہو گیا۔ بعد میں اس نے اسے دو صریح طلاقیں دی ہیں، اس مسئلہ کا جواب درکار ہے۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
نکاح رجسٹرار نے جو اس عورت کو اس آدمی کے حوالے کیا ہے، بالکل غلط ہے۔ کیونکہ اگر شوہر اپنی بیوی کو رخصتی اور دخول سے پہلے طلاق دیتاہے تو وہ ایک ہی طلاق بائنہ ہو جاتی ہے۔ مگر یہ علیحدگی بینونہ صغریٰ کہلاتی ہے اور عورت اس ایک ہی طلاق سے اجنبی بن جاتی ہے۔ پھر اگر ان فریقین کی موافقت اور رضامندی ہو تو ولی اور دو گواہوں کی موجودگی میں نیا نکاح ہو سکتا ہے۔ حدیث میں ہے:
(لا نكاح الا بولى وشاهدى عدل) (صحیح ابن حبان:386/9،حدیث:4075وسنن الدارقطنی:3/221،ھدیث:11والسنن الکبری للبیھقی:124/7،حدیث:13494۔)
’’ولی اور دو عال گواہوں کے بغیر کوئی نکاح نہیں۔‘‘
چونکہ اس عورت کے ساتھ ایک شبہ اور غلطی کے تحت مباشرت ہوئی ہے اور جو بچہ اس نے جنم دیا ہے ایک باطل نکاح سے تولد ہوا ہے، بچہ اسی آدمی کی طرف منسوب ہو گا اور اس کا وارث بھی ہو گا۔ اور دو طلاقیں جو اس آدمی نے بعد میں دی ہیں، ان کا کوئی محل نہیں ہے، اس لیے باطل ہیں۔ اس عورت کو اس سے دور ہو جانا چاہئے کیونکہ یہ اس کے لیے اجنبی اور غیر ہے تا آنکہ ان کے درمیان شرعی اصولوں سے نکاح ہو۔ اور نکاح کے ارکان معروف ہیں یعنی عورت کا ولی، شوہر کا قبول، حق مہر اور اس عقد کے گواہان۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب