سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(755) وہ امور جو عقد ازواج سے پہلے ہو جائیں

  • 18362
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 639

سوال

(755) وہ امور جو عقد ازواج سے پہلے ہو جائیں

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میں ایک شادی شدہ نوجوان ہوں مگر نکاح ہونے سے تقریبا چوبیس گھنٹے پہلے بعض حاسدین اور چغل خوروں کی وجہ سے میرے اور میرے سسرالیوں کے درمیان بڑے گرما گرم اختلافات رونما ہو گئے، مجھے بہت غصہ آیا، جس کے نتیجہ میں میں نے اپنی بیوی کے متعلق غلط انداز اپنایا اور کہا کہ ابھی تو اس کی شادی نہیں ہوئی ہے، اگر شادی کے بعد اس نے اس طرح کیا تو اسے طلاق۔ اور ہمارا نکاح ہو گیا اور پھر ہمارے مابین بہت حد تک مفاہمت ہو گئی، حتیٰ کہ میں نے اسے اس کام کی بھی اجازت دے دی جس کے ہونے پر میں نے طلاق کا کہا تھا۔ تو کیا اس طرح طلاق ہو جاتی ہے؟ اور اب مجھے کیا کرنا چاہئے؟ اور خیال رہے کہ میری یہ بات جو میں نے اس کے متعلق کہی تھی بیوی کے علم میں نہیں ہے، بلکہ میں اسے یہ بتانے سے گھبراتا ہوں کہ کہیں اس سے ہمارے درمیان پھر سے کوئی شکر رنجی نہ ہو جائے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

آپ نے جو یہ ذکر کیا ہے کہ طلاق کو معلق اور مشروط طور پر کہا تھا کہ اگر اس عورت نے اس اس طرح کیا تو اسے طلاق ہو گی، اس کا کوئی اثر نہیں ہے۔ کیونکہ یہ عقد نکاح سے پہلے کی بات ہے، اور طلاق ہمیشہ نکاح کے بعد ہوا کرتی ہے۔ اللہ عزوجل کا فرمان ہے:

﴿وَإِن طَلَّقتُموهُنَّ مِن قَبلِ أَن تَمَسّوهُنَّ وَقَد فَرَضتُم لَهُنَّ فَريضَةً فَنِصفُ ما فَرَضتُم إِلّا أَن يَعفونَ أَو يَعفُوَا۟ الَّذى بِيَدِهِ عُقدَةُ النِّكاحِ ... ﴿٢٣٧﴾... سورة البقرة

’’اور اگر تم بیویوں کو انہیں ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق دے دو، جبکہ تم ان کے لیے کچھ حق مہر مقرر کر چکے ہو، تو جو مقرر کیا ہو اس کا  آدھا حصہ ادا کرنا ہے، سوائے اس کے کہ وہ عورتیں معاف کر دیں یا وہ معاف کر دے جس کے ہاتھ میں نکاح کی گرہ ہے۔‘‘

تو اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے طلاق کا ذکر نکاح کے بعد کیا ہے۔ اور اس لیے بھی کہ طلاق کا مفہوم "نکاح کی گرہ کھولنا ہے۔" اور یہ کھولنا تبھی ہو سکتا ہے جب یہ بندھن بندھ چکا ہو۔

اس لیے آپ کی بیوی کو کوئی طلاق نہیں ہے خواہ وہ کام کر گزرے جس پر آپ نے اس کی طلاق کو معلق اور مشروط بنایا تھا۔ مگر آپ کے ذمے اس صورت میں قسم کا کفارہ لازم ہے۔ اس لیے کہ قسم لازم ہو جاتی ہے خواہ وہ بیوی کے علاوہ کسی بھی عورت کے متعلق ہو۔

اور قسم کا کفارہ یہ ہے کہ دس مسکینوں کو کھانا کھلایا جائے یا انہیں کپڑے دیے جائیں یا ایک غلام آزاد کیا جائے۔ اگر یہ نہ پائے تو تین دن کے مسلسل روزے رکھنے ہیں۔ اور کھانے کی صورت یہ ہے کہ ان کے لیے ایک وقت میں دن یا رات کا کھانا دیا جائے، آپ ان دس مسکینوں کو بلا کر کھانا کھلا دیں یا تقریبا چھ کلو چاول اور اس کے ساتھ گوشت وغیرہ بطور سالن ان کو دے دیں اور کپڑے اس طرح ہیں کہ ہر ایک کو قمیص، شلوار اور رومال جو معروف لباس ہے، دیا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے لباس کو عام رکھا ہے، تو اس کے لیے عرف کی طرف رجوع ہو گا۔

اور غلام آزاد کرنا یہ ہے کہ کوئی مملوک غلام یا لونڈی خرید کر آزاد کر دی جائے۔ اگر یہ میسر نہ ہو مثلا اتنی رقم حاصل نہ ہو جس سے آپ کھانا کھلا سکیں یا انہیں لباس دے سکیں یا غلام حاصل کر سکیں، یا مال تو ہو مگر مسکین نہ ملیں کہ انہیں کھانا کھلایا جائے یا لباس دیا جائے، یا غلام ہی نہ ملتا ہو وغیرہ، تو اس صورت میں تین دن متواتر روزے رکھنے ہوں گے۔

اور آخر میں میں آپ کو اے بھائی، اور آپ کے علاوہ دوسرے لوگوں کو بھی یہ نصیحت کرتا ہوں کہ طلاق کے الفاظ بولنے میں بے پروائی اور جلدی نہیں کرنی چاہئے، کیونکہ یہ مسئلہ انتہائی نازک ہے۔ علماء فرماتے ہیں کہ اگر بالفرض آدمی اپنی بیوی سے یوں کہہ دے کہ اگر تو نے اس طرح کیا تو تجھے طلاق، اور پھر عورت نے وہ کام کر ڈالا تو اسے طلاق ہو جائے گی۔

کسی بھی دانا آدمی کو ان باتوں میں جلدی نہیں کرنا چاہئے بلکہ انتظار اور صبر سے کام لینا چاہئے۔ اور اگر بیوی کو کسی کام سے روکنا ہو تو اس طرح کے طلاق کے الفاظ بولے بغیر ہی اس کو منع کرے۔ اور اللہ توفیق دینے والا ہے۔

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

احکام و مسائل، خواتین کا انسائیکلوپیڈیا

صفحہ نمبر 540

محدث فتویٰ

تبصرے