السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
عورت کب اور کس طرح مطلقہ ہوتی ہے؟ اور طلاق کے مباح کیے جانے کی کیا وجہ ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
عورت اس وقت طلاق یافتہ سمجھی جاتی ہے جب اس کے شوہر نے بقائمی ہوش و حواس، خود مختار ہوتے ہوئے اپنی بیوی پر طلاق واقع کی ہو، اور مرد جنون یا نشے وغیرہ کی حالت میں نہ ہو جو وقوع طلاق کے لیے مانع ہے۔
اور اگر عورت طہر کے ایام میں ہو اور ان دنوں میں میاں بیوی کا صنفی ملاپ نہ ہوا ہو یا وہ حمل سے ہو یا آیسہ ہو تو اسے طلاق ہو جاتی ہے اور اگر عورت حیض یا نفاس میں ہو، یا ایسے طہر میں ہو جس میں میاں بیوی کا صنفی ملاپ ہو چکا ہو جبکہ وہ حاملہ یا آیسہ نہ ہو، تو علماء کے صحیح تر قول کے مطابق اس پر طلاق واقع نہیں ہو گی، الا یہ کہ شرعی قاضی اس طلاق کے نافذ ہونے کا فیصلہ کر دے تو یہ واقع ہو جائے گی، کیونکہ اجتہادی مسائل میں شرعی قاضی کا فیصلہ اختلاف کو ختم کرنے والا ہوتا ہے۔
اور ایسے ہی اگر شوہر مجنون ہو یا اسے مجبور کر دیا گیا ہو یا کوئی نشہ آور چیز لے کر نشے کی حالت میں ہو، خواہ یہ گناہ ہی سہی، یا مغلوب الغضب ہو، ایسا کہ اس کی سمجھ بوجھ پر پردہ پڑ گیا ہو اور وہ طلاق کے نقصانات سے شعور میں نہ رہا ہو، اور اس کے اسباب بھی واضح ہوں، یہاں تک کہ مطلقہ عورت بھی اس کی تصدیق کرے یا دیگر مختلف گواہیوں سے یہ ثابت ہوا ہو، ایسی صورت میں ایسے آدمی کی طلاق واقع نہیں ہو گی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے ’’تینوں طرح کے آدمیوں سے قلم اٹھا لیا گیا ہے: چھوٹی عمر والا حتیٰ کہ بالغ ہو جائے سویا ہوا حتیٰ کہ جاگ جائے اور مجنون حتیٰ کہ صحت مند ہو جائے۔‘‘ (سنن ابی داود،کتاب الحدود،باب فی المجنون یسرق اویصیب حدا،ھدیث:9202وسنن الترمذی،کتاب الحدود،باب فیمن لایحب علیہ الحد،ھدیث:1423وسنن النسائی،کتاب الطلاق،باب من لایقع طلاقہ من الازواج،حدیث:3432۔) اور اللہ عزوجل کا فرمان ہے:
﴿مَن كَفَرَ بِاللَّهِ مِن بَعدِ إيمـٰنِهِ إِلّا مَن أُكرِهَ وَقَلبُهُ مُطمَئِنٌّ بِالإيمـٰنِ ... ﴿١٠٦﴾... سورة النحل
’’جس نے ایمان لے آنے کے بعد اللہ سے کفر کیا، سوائے اس کے جسے مجبور کر دیا گیا ہو اس حال میں کہ اس کا دل ایمان پر مطمئن ہو۔‘‘
تو جب کفر پر مجبور کیا گیا آدمی، کافر نہیں بن جاتا ہے، بشرطیکہ اس کا دل ایمان پر مطمئن ہو، تو طلاق پر مجبور کیا گیا آدمی بالاولٰی اس درجہ میں ہے کہ اس کی طلاق نافذ نہ ہو۔ بشرطیکہ طلاق دینے والے کو اکراہ کے علاوہ کسی اور چیز نے اس پر آمادہ نہ کیا ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
لا طلاق ولا عتاق فى اغلاق (سنن ابی داود،کتاب الطلاق،باب فی الطلاق علی غلط،حدیث:2193،سنن ابن ماجہ،کتاب الطلاق،باب طلاق المکرہ،حدیث:2046ومسند احمد بن حنبل:6/276مسند عائشۃ۔)
’’مجبور کیے جانے میں کوئی طلاق نہیں، کوئی آزاد کرنا نہیں۔‘‘
امام احمد رحمہ اللہ اور بہت سے علماء نے اغلاق کا معنی اکراہ اور غضب شدید کیا ہے۔
ایسے ہی حضرت عثمان خلیفہ ثالث رضی اللہ عنہ اور بہت سے علماء نے یہ فتویٰ دیا ہے کہ بحالت نشہ طلاق نہیں ہوتی جبکہ اس کی عقل زائل ہو چکی ہو۔ تاہم اس کے گناہ گار ہونے میں شبہ نہیں ہے۔
طلاق مباح ہونے کی حکمت انتہائی واضح ہے۔ ہو سکتا ہے یہ بیوی شوہر کے مناسب حال نہ ہو اور وہ اسے بہت زیادہ ناپسند کرتا ہو، اور اس کے کئی اسباب ہو سکتے ہیں مثلا نادان ہو، دینی حالت کمزور ہو، یا بے ادب ہو وغیرہ تو اللہ نے اس میں وسعت رکھی ہے کہ مراد اسے اپنی عصمت سے نکال دے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَإِن يَتَفَرَّقا يُغنِ اللَّهُ كُلًّا مِن سَعَتِهِ ... ﴿١٣٠﴾... سورة النساء
’’اگر میاں بیوی میں موافقت نہ ہو سکے اور وہ ایک دوسرے سے جدا ہو جائیں تو اللہ ہر ایک کو اپنی دولت سے غنی کر دے گا۔‘‘
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب