سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(742) نکاح حلالہ کی شرعی حیثیت

  • 18349
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-04
  • مشاہدات : 4399

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

نکاح حلالہ کا شرعی اعتبار سے کیا حکم ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مناسب معلوم ہوتا ہے کہ پہلے نکاح حلالہ کی وضاحت کر دی جائے۔ "حلالہ" یہ ہے کہ ایک آدمی اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دے یعنی پہلے طلاق دے پھر رجوع کر لیا، پھو دوبارہ طلاق دی اور رجوع کر لیا، پھر اس کے بعد تیسری طلاق دے دی۔ اس صورت میں یہ عورت اس طلاق دینے والے شوہر کے لیے حلال نہیں ہے، سوائے اس کے کہ اگر یہ عورت کسی اور مرد سے نکاح کرے اور یہ نکاح رغبت ہو یعنی فی الواقع حقیقی نکاح ہو، اور پھر وہ شوہر اس سے مباشرت بھی کرے اور پھر وہ اسے طلاق دے، یا ان کا نکاح کسی صورت میں فسخ ہو جائے تو اب یہ عورت پہلے شوہر کے لیے حلال ہو سکتی ہے۔ کیونکہ اللہ عزوجل کا فرمان ہے:

﴿الطَّلـٰقُ مَرَّتانِ فَإِمساكٌ بِمَعروفٍ أَو تَسريحٌ بِإِحسـٰنٍ...﴿٢٢٩﴾... سورة البقرة

’’طلاق دینا دو بار ہے، پھر یا تو معروف اور بھلے طریقے سے اسے روکے رکھنا ہے یا احسان کے ساتھ چھوڑ دینا ہے۔‘‘

اس کے بعد فرمایا:

﴿فَإِن طَلَّقَها فَلا تَحِلُّ لَهُ مِن بَعدُ حَتّىٰ تَنكِحَ زَوجًا غَيرَهُ فَإِن طَلَّقَها فَلا جُناحَ عَلَيهِما أَن يَتَراجَعا إِن ظَنّا أَن يُقيما حُدودَ اللَّهِ ...﴿٢٣٠﴾... سورة البقرة

’’پھر اگر (تیسری) طلاق بھی دے دے تو یہ عورت اس کے لیے حلال نہ ہو گی حتیٰ کہ اس کے علاوہ کسی اور مرد سے نکاح کرے۔ پھر اگر وہ (دوسرا) اسے طلاق دے دے تو ان دونوں پر (یعنی پہلے شوہر اور اس عورت پر) کوئی حرج نہیں کہ رجوع کر لیں (یعنی نکاح کر لیں) مگر اس شرط سے کہ انہیں یقین ہو کہ یہ اللہ کی حدیں قائم رکھیں گے۔‘‘

تو اس موقع پر کوئی آدمی اس تین طلاق یافتہ عورت کا قصد کرے اور اس نیت سے نکاح کر لے کہ جب وہ اسے پہلے کے لیے حلال بنا دے گا تو اسے طلاق دے دے گا (یعنی اس سے مقاربت کرنے کے بعد اسے طلاق دے دے گا)، پھر یہ عدت گزارنے کے بعد پہلے شوہر کے پاس لوٹ جائے تو ایسا نکاح باطل ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حلالہ کرنے والے اور جس کے لیے یہ حلالہ کیا گیا ہو انہیں لعنت فرمائی ہے۔’’اس روایت میں ہےکہ اللہ نے لعنت کی ہے۔ بلکہ آپ نے اس حلالہ کرنے والے کو ' التيس المستعار' (مانگے کا سانڈ) قرار دیا ہے۔  جیسے کہ کوئی بکریوں والا ان کی جفتی کے لیے کسی سے چند دنوں کے لیے نر مانگ لاتا ہے، کہ ضرورت پوری ہونے کے بعد اسے واپس کر دیا جاتا ہے۔ گویا اس آدمی سے بھی یہی چاہا گیا ہے کہ وہ اس عورت سے نکاح کر لے اور پھر بعد میں اسے طلاق دے دے۔ یہ ہے نکاح حلالہ اور یہ دو صورتوں سے ہوتا ہے:

1۔ اس عقد اور نکاح میں شرط کیا جاتا ہے کہ ہم اپنی بیٹی کا تجھ سے نکاح کر دیتے ہیں کہ تو اس سے مباشرت کرے گا اور پھر طلاق دے دے گا۔

2۔ دوسری صورت یہ ہے کہ مقصد تو یہی ہوتا ہے مگر شرط کی صراحت نہیں ہوتی۔

اور یہ نیت بعض اوقات شوہر کی طرف سے ہوتی ہے اور کبھی عورت اور اس کے اولیاء کی طرف سے ہوتی ہے۔

اگر یہ نیت شوہر کی طرف سے ہو، اور شوہر ہی عورت کو رکھنے یا چھوڑنے کا مالک ہوتا ہے، تو اس کے لیے یہ عورت اس عقد سے حلال نہیں ہو سکتی۔ کیونکہ اس نے اس عقد میں "نکاح" کی نیت نہیں کی۔ یعنی وہ اسے ہمیشہ کے لیے اپنے پاس رکھنےکی نیت نہیں رکھتا۔ اس میں اس کی نیت عفت، الفت اور محبت یا اولاد وغیرہ کی نہیں ہے، جو نکاح کے بنیادی مقاصد و مصالح ہیں، اس لیے یہ نکاح صحیح نہ ہوا۔

اگر عورت کی نیت یہ ہو کہ میں اس سے علیحدہ ہو جاؤں گی تو اس بارے میں علماء کا اختلاف ہے۔ مگر مجھے اس اختلاف میں فی الحال کوئی راجح قول معلوم نہیں ہے۔

الغرض نکاح حلالہ، حرام ہے، یہ پہلے شوہر کے لیے عورت کے حلال ہونے کا کوئی فائدہ نہیں دیتا ہے، کیونکہ یہ غیر صحیح ہے۔

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

احکام و مسائل، خواتین کا انسائیکلوپیڈیا

صفحہ نمبر 530

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ