سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(734) اولاد نہ ہونے کی صورت میں دوسری شادی کرنا

  • 18341
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-26
  • مشاہدات : 888

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میرا شوہر میرے ہاں اولاد نہ ہونے کے باعث دوسری شادی کرنا چاہتا ہے اور میں اس کے لیے کسی طرح راضی نہیں ہوں، اور وہ بھی صرف غیرت کی بنا پر۔ تو کیا مجھے شرعی طور پر حق حاصل ہے کہ اپنا مقدمہ قاضی کے سامنے پیش کر دوں تاکہ مجھے اس شوہر سے طلاق مل جائے؟ خیال رہے کہ شوہر اس وقت تک دوسری شادی نہیں کر سکتا ہے جب تک کہ پہلی بیوی اجازت نہ دے دے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مرد کے لیے ہر طرح سے جائز ہے کہ وہ اپنی بیوی سے اجازت لیے بغیر چار تک شادیاں کر سکتا ہے۔ اور وہ اس کا کسی طرح پابند نہیں ہے کہ پہلی بیوی سے رضا مندی لے۔ اس خاتون کو اللہ تعالیٰ کا شکر کرنا چاہئے کہ اس کا شوہر اس سے باوجود اولاد نہ ہونے کے ایک طرح سے محبت کرتا اور اسے طلاق نہیں دینا چاہتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اگر یہ اسے طلاق دے دے تو پھر اس کی کہیں اور شادی ہی نہ ہو۔

ہر عورت کو چاہئے کہ باخبر رہے کہ غیرت کے نام پر اس حد تک آگے نہ بڑھ جائے کہ حرام اور باطل میں داخل ہو جائے۔ بلکہ اگر کوئی عورت بغیر کسی معقول سبب کے طلاق کا مطالبہ کرتی ہے تو یہ ایک کبیرہ گناہ ہے۔

طلاق طلب کرنے کے چند اسباب ہیں جو علماء کے ہاں معروف ہیں مثلا شوہر اخراجات مہیا کرنے سے عاجز ہو یا اسے جون کا عارضہ ہو جو عورت کے لیے کسی خطرے کا باعث ہو اور وہ اس کے باعث امن میں نہ ہو یا اسے کوئی ایسا مرض لاحق ہو جائے جو عورت کے لیے باعث ضرر وغیرہ۔ اگر اس طرح کے کسی سبب سے طلاق مانگے تو جائز ہے۔

لیکن اس سبب سے طلاق کا مطالبہ کرنا کہ وہ کسی دوسری عورت سے شادی کرنا چاہ رہا ہے، اور اس اعتراف کے باوجود کہ اس کی بنیاد صرف غیرت ہے۔ میں اس خاتون کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث کے ذریعے متنبہ کرتا ہوں۔ حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

ايما امراة سالت زوجها الطلاق بغير ما باس فحرام عليها رائحة الجنة

’’جو کوئی عورت اپنے شوہر سے بغیر کسی خاص وجہ کے طلاق کا مطالبہ کرے تو اس پر جنت کی خوشبو حرام ہے۔‘‘ (سنن ابی داود،کتاب الطلاق،باب فی الخلع،حدیث:2226وسنن الترمذی،کتاب الطلاق،باب المختلفات،حدیث:1187ومسند احمد بن حنبل:277/5،حدیث:22433۔)

اس پر مزید یوں بھی دیکھنا چاہئے کہ ایسی صورت میں مسلمان قاضی ہرگز ہرگز طلاق نہیں دے گا۔ قاضی کو طلاق دینے کا حق ہی حاصل نہیں ہے۔ طلاق کا فیصلہ تو رب الارباب جل و علا کرتا ہے۔ ([1]) خواہ ہزار قاضی بھی ہوں اور بغیر شرعی سبب کے طلاق دیں تو طلاق نہیں ہو گی۔ اور اگر بالفرض اس طرح طلاق کے بعد اگر آپ نے کہیں شادی کر بھی لی تو آپ کا یہ نکاح باطل ہو گا اور مدت الحیات زنا اور بدکاری کی زندگی گزاریں گی۔ یہ وہ اہم اساسی نکتہ ہے جو آپ کو اس مسئلے میں بتا دیا گیا ہے۔

اور جو آدمی اللہ کی شریعت چھوڑ کر انسانوں کے خود ساختہ قوانین کی طرف جاتا ہے، ضرور ہے کہ اللہ اسے دنیا میں ذلیل اور آخرت میں عذاب سے دوچار کرے گا، سوائے اس کے جو اللہ چاہے۔ الگرض آپ کو اس قسم کے جذبات سے متنبہ رہنا چاہئے، یہ ایک بڑا فتنہ ہے!


[1] یعنی جو قرآن وحدیث میں شرعی اصول وضوابط میں موجود ہے۔

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

احکام و مسائل، خواتین کا انسائیکلوپیڈیا

صفحہ نمبر 523

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ