السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
قرآن کریم میں تعدد ازدواج کے ضمن میں فرمایا گیا ہے کہ ﴿فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً﴾ (النساء: 4/3) ’’اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ ان بیویوں میں عدل نہیں کر سکو گے تو ایک ہی پر کفایت کرو۔‘‘
جبکہ دوسری جگہ فرمایا: ﴿وَلَن تَسْتَطِيعُوا أَن تَعْدِلُوا بَيْنَ النِّسَاءِ وَلَوْ حَرَصْتُمْ ۖ ﴾(النساء: 4/129) ’’اور تم لوگ، خواہ تمہاری کتنی ہی حرص ہو، عورتوں میں ہرگز عدل نہیں کر سکو گے۔‘‘
پہلی آیت میں عدل کرنا شرط کہا گیا ہے اور دوسری میں بتایا گیا ہے کہ تمہارے لیے عدل کرنا ناممکن ہے۔ تو کیا اس کا یہ مفہوم ہے کہ پہلی آیت منسوخ ہے اور ایک سے زیادہ شادی کرنا جائز نہیں؟ کیونکہ عدل کی شرط پوری ہونا ناممکن ہے۔ اس بارے میں وضاحت فرمائیں۔ وجزاکم اللہ خیرا
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ان آیات میں کوئی تعارض یا نسخ والی بات نہیں ہے۔ جس بات کا حکم دیا گیا ہے وہ صرف عدل ہے جو انسان کی طاقت میں ہے یعنی باری دینا اور اخراجات مہیا کرنا۔ لیکن محبت و چاہت اور اس کے ضمنی امور (مقاربت و مباشرت وغیرہ) یہ انسان کی طاقت میں نہیں ہے اور اللہ کے فرمان: ﴿وَلَن تَسْتَطِيعُوا أَن تَعْدِلُوا بَيْنَ النِّسَاءِ وَلَوْ حَرَصْتُمْ﴾ میں یہی بیان کیا گیا ہے۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بیان کرتی ہیں کہ آپ اپنی بیویوں میں باری کا اہتمام فرماتے اور پورا پورا عدل کرتے اور فرمایا کرتے:
اللَّهُمَّ هَذَا قَسْمِي فِيمَا أَمْلِكُ ،فَلَا تؤاخذني فِيمَا لَا مْلِكُ
’’اے اللہ یہ میری تقسیم ہے جس کا میں مالک ہوں۔ تو جس بات کا تو مالک ہے، میں اس کا کوئی اختیار نہیں رکھتا، اس میں مجھے ملامت نہ فرمانا۔‘‘ (سنن ابی داود،کتاب النکاح،باب فی القسم بین النساء،حدیث:2134وسنن الدارمی:193/2،حدیث:2207۔)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب