السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک مسلمان بہن، دین اسلام کی پابند ہے، اس نے اللہ سے توبہ کی ہے، تقریبا آدھا قرآن یاد ہے، علماء کے دروس میں بھی حاضر ہوتی ہے، سر ڈھانپے رہتی ہے، اور ان شاءاللہ عنقریب نقاب بھی لینا شروع کر دے گی۔ وہ جاہلیت کے دنوں میں بدکاری کی مرتکب ہوئی تھی اور چار حمل بھی ضائع کرایا۔ اب شادی کے موقع پر اس کے لیے کیا حکم ہے کہ آیا وہ اپنے شوہر کو اپنے متعلق سب کچھ بتا دے تاکہ وہ دھوکے میں نہ رہے۔ یا خاموش رہے جیسے کہ بعض نے اسے کہا ہے کہ جس بات پر اللہ نے پردہ ڈالا ہے، بندہ اسے ظاہر نہ کرے۔ اور دوسرے وہ جو کر چکی ہے اس کا کیا فائدہ ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس بہن کو چاہئے کہ اللہ سے توبہ کرے خالص توبہ، اور جہاں تک ہو سکے نیکی کے کام کرنے میں اور زیادہ کوشش کرے۔ زنا، اللہ محفوظ رکھے: سب جرائم سے بڑھ کر غلیظ جرم ہے اور اس کی طرف وہی طبیعتیں مائل ہوتی ہیں جو نفسیاتی طور پر ضعیف اور کمزور ہوں، اس پر اللہ کا عقاب بڑا سخت ہے۔ جبکہ یہ جذبات فوری ہوتے ہیں جو لمحات میں ختم ہو جاتے ہیں۔
امام احمد اور ابن ماجہ روایت لائے ہیں، جناب ثوبان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اسْتَقِيمُوا وَلَنْ تُحْصُوا وَاعْمَلُوا ، ان وَخَيْرُ أَعْمَالِكُمُ الصَّلَاةُ ، وَلَا يُحَافِظُ عَلَى الْوُضُوءِ إِلَّا مسلم
’’سیدھی راہ اختیار کرو، مگر تم کامل طور پر اس کا لحاظ نہیں رکھ سکو گے، اور آگاہ ہو جاؤ کہ تمہارے اعمال میں سب سے بہترین نماز ہے، اور کوئی مسلمان ہی اپنے وضو کی حفاظت کرتا ہے۔‘‘ (سنن ابن ماجہ،کتاب الطہارۃوسننھا،باب المحافظۃعلی الوضوء،حدیث:277ومسند احمد بن حنبل:276/5،ھدیث:22432والمستدرک للحاکم:220/1حدیث:450،449،448،447۔)
اس حدیث میں ارشاد ہے کہ بندہ نماز کی خوب پابندی کرے ۔۔ جناب ربیعہ بن کعب اسلمی رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں رات گزارہ کرتے تھے اور آپ کے لیے وضو کے پانی اور دیگر ضروریات کا اہتمام کیا کرتے تھے۔ ایک موقع پر آپ نے اس سے دریافت فرمایا کہ ’’مانگ لو، کیا چاہتے ہو؟‘‘ انہوں نے کہا: میں آپ سے جنت میں آپ کی وفاقت چاہتا ہوں!’’ آپ نے فرمایا: ’’کیا کوئی اور؟‘‘ انہوں نے کہا: ’’نہیں میرا یہی سوال ہے۔‘‘ آپ فرمایا:
(اعنى على نفسك بكثرة السجود) ’’اپنے لیے میری کثرت سجود سے مدد کر۔‘‘ (صحیح مسلم،کتاب الصلاۃ،فضل السجود والحث علیہ،حدیث:789۔سنن ابی داود،کتاب الصلاۃ،باب وقت قیام النبی صلی اللہ علیہ وسلم من اللیل،حدیث:1320۔سنن النسائی،صفۃالصلاۃ،باب فضل السجود،حدیث:1138۔)اور جو حمل ضائع کراتے ہیں، اگر یہ بالکل ابتدائی دنوں ہی میں تھے تو چاہئے کہ کثرت سے استغفار کرے۔ اس کے علاوہ اس کا اور کوئی کفارہ نہیں ہے۔ مگر اتنی بات ضرور ہے کہ جب چار بار ایسا ہوا ہے تو اس سے عورت کے رحم کو بہت زیادہ نقصان پہنچ جاتا ہے، اور ممکن ہے کہ ولادت کی صلاحیت کمزور ہو جائے۔ اس بارے میں امانت دار قابل اعتماد مسلمان ڈاکٹروں کی طرف رجوع کرے۔ اگر فی الواقع اس طرح کی کمزوری ثابت ہو تو چاہئے کہ یہ اپنے منگیتر کو بتا دے کہ مجھے یہ عارضہ ہے اور مجھ میں ولادت کی صلاحیت کمزور ہے۔ اور چاہئے کہ اپنے ماضی کے متعلق اپنے اوپر پردہ ڈالے اور کسی کو اس سے آگاہ نہ کرے۔ بالخصوص جب اللہ نے بھی اس پر پردہ ڈالا ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب