السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک لڑکی کا سوال ہے، کہتی ہے کہ میری عمر بائیس سال ہے، میرا ایک نوجوان سے تعارف ہو گیا اور پھر ہمارے درمیان وہ کچھ ہو گیا جو میں زبان پر نہیں لا سکتی۔ الغرض حمل ہوا جو پچاس دن کے بعد ضائع کرا دیا گیا، اور پھر میں نے توبہ کی ہے، خالص توبہ جو اللہ ہی جانتا ہے۔ جو کچھ ہوا اس پر میں انتہائی نادم اور شرمندہ ہوں اور میرا پختہ عہد ہے کہ آئندہ کوئی ایسی حرکت نہیں کروں گی۔ میرا آپ سے سوال یہ ہے کہ یہ نوجوان مجھ سے چاہتا ہے کہ ہم شادی کر لیں مگر اس شرط سے کہ ہم دونوں کے گھر والوں میں کسی کو اس کی خبر نہ ہو، سوائے میری ماں کے۔ اور مجھے یقین ہے کہ اگر اس کی ماں کو خبر ہو گئی تو قسمیہ طور پر مجھے طلاق ہو جائے گی۔ براہ مہربانی مجھے بتلایے کہ آیا میرا اس شخص سے نکاح اللہ تعالیٰ کے ہاں معافی سمجھا جائے گا اور کیا یہ عمل میری توبہ کی تکمیل سمجھا جائے گا یا نہیں؟ اور کیا ان شروط کے تحت نکاح صحیح ہے؟ اور یہ بچہ جو میں نے ساقط کرایا ہے اس کا کیا فدیہ ہے جو میں ادا کر دوں؟ اور پھر اس سب کچھ کے بعد جو ہمارے درمیان ہوا، ہمارا نکاح صحیح ہو گا؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
انا للہ وانا الیہ راجعون۔ ایک بڑی مصیبت۔ معلوم ہوتا ہے کہ فحاشی و بدکاری عام ہو رہی ہے، اور کسی جانب سے اس کے خلاف کوئی آواز نہیں اٹھ رہی! شاید یہ حالات اس صحیح حدیث کا مصداق ہیں جو صحیحین میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ:
مِنْ أَشْرَاطِ السَّاعَةِ أَنْ يُرْفَعَ الْعِلْمُ وَيَثْبَتَ الْجَهْلُ ، وَيُشْرَبَ الْخَمْرُ ، وَيَظْهَرَ الزِّنَا "
’’بلاشبہ قیامت کی علامات میں سے یہ ہے کہ علم اٹھ جائے گا، جہالت عام ہو جائے گی، شراب پی جائے گی اور زنا عام ہو جائے گا۔‘‘ (صحیح بخاری،کتاب العلم،کتاب رفع العلم وظہور الجھل،حدیث:80۔صحیح مسلم،کتاب العلم،باب رفع العلم وقبضہ وظہور الجھل والفتن،حدیث:2671ومسند ابی یعلی:7/193،حدیث:4179ومسند احمد بن حنبل:151/3،حدیث:12549۔)
اور یقینا ان ہلاکتوں کی طرف میلان کا واحب سبب یہی ہے کہ لوگ اللہ عزوجل اور اس کی حدود سے جاہل ہیں، اور علم کی دو جوانب ہیں: ایک اللہ تبارک و تعالیٰ (کی عظمت و جلال اور جبروت) کا علم اور دوسرے اس کی متعین کردہ حدود کا علم۔ اور صحیح بخاری میں حضرت ابو مسعود بدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إِنَّ مِمَّا أَدْرَكَ النَّاسُ مِنْ كَلامِ النُّبُوَّةِ الأُولَى : إِذَا لَمْ تَسْتَحْيِ فَاصْنَعْ مَا شِئْتَ
’’گذشتہ انبیاء کی تعلیمات میں سے ایک بات جو لوگوں کو فی الواقع معلوم ہوئی ہے، یہ ہے کہ ’’بے حیا بن اور جو جی چاہے کر۔‘‘ (صحیح بخاری،کتاب الادب،باب اذالم تستح فاصنع ماشئت،حدیث:5769۔سنن ابن ماجہ،کتاب الزھد،باب الحیاء،حدیث:4183۔سنن ابی داود،کتاب الادب،باب فی الحیاء،حدیث:4797۔)
الغرض سوال کرنے والی لڑکی کے متعلق مجھے اللہ عزوجل سے کامل امید ہے کہ وہ اس کی توبہ قبول فرمائے گا۔ توبہ گناہوں کو متا دیتی ہے۔ اور گناہ سے توبہ کرنے والا ایسے بندے کی طرح ہو جاتا ہے جس نے کوئی گناہ نہ کیا ہو۔ اور اللہ عزوجل کا فرمان بھی ہے:
﴿وَالَّذينَ إِذا أَنفَقوا لَم يُسرِفوا وَلَم يَقتُروا وَكانَ بَينَ ذٰلِكَ قَوامًا ﴿٦٧﴾وَالَّذينَ لا يَدعونَ مَعَ اللَّهِ إِلـٰهًا ءاخَرَ وَلا يَقتُلونَ النَّفسَ الَّتى حَرَّمَ اللَّهُ إِلّا بِالحَقِّ وَلا يَزنونَ وَمَن يَفعَل ذٰلِكَ يَلقَ أَثامًا ﴿٦٨﴾ يُضـٰعَف لَهُ العَذابُ يَومَ القِيـٰمَةِ وَيَخلُد فيهِ مُهانًا ﴿٦٩﴾ إِلّا مَن تابَ وَءامَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صـٰلِحًا فَأُولـٰئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّـٔاتِهِم حَسَنـٰتٍ وَكانَ اللَّهُ غَفورًا رَحيمًا ﴿٧٠﴾... سورة الفرقان
’’اور اللہ کے بندے وہ ہیں ۔۔۔ جو اللہ کے ساتھ کسی اور معبود کو نہیں پکارتے اور نہ کسی جان کو، جسے مار ڈالنا اللہ نے حرام کیا ہے، اسے قتل نہیں کرتے مگر حق کے ساتھ، اور بدکاری نہیں کرتے، اور جو یہ کرے گا سخت گناہ میں مبتلا ہو گا، قیامت کے دن اس کو دوگنا عذاب ہو گا، اور ذلت و خواری سے ہمیشہ اس میں رہے گا، مگر جس نے توبہ کر لی اور ایمان لایا اور نیک کام کیے تو وہ ایسے لوگوں کے گناہوں کو نیکیوں سے بدل دے گا، اور اللہ تو بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘
اور ان آیات کے سبب نزول میں یہ ہے جیسے کہ صحیحین میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مشرکین میں سے کچھ لوگ جو ناروا قتل کے مرتکب ہو چکے تھے۔ اور بدکاریوں میں بھی ملوث رہے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ جو کچھ آپ کہتے ہیں اور اس کی دعوت دیتے ہیں، بہت اچھا ہے، تو کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ جو ہم کر چکے ہیں اس کا کوئی کفارہ بھی ہے؟ تو اس پر یہ نازل ہوا:
﴿قُل يـٰعِبادِىَ الَّذينَ أَسرَفوا عَلىٰ أَنفُسِهِم لا تَقنَطوا مِن رَحمَةِ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ يَغفِرُ الذُّنوبَ جَميعًا إِنَّهُ هُوَ الغَفورُ الرَّحيمُ ﴿٥٣﴾ وَأَنيبوا إِلىٰ رَبِّكُم وَأَسلِموا لَهُ مِن قَبلِ أَن يَأتِيَكُمُ العَذابُ ثُمَّ لا تُنصَرونَ ﴿٥٤﴾... سورةالزمر
’’اے پیغمبر میری طرف سے لوگوں کو کہہ دیجیے کہ اے میرے بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے، اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہونا، اللہ تو سب گناہوں کو بخش دیتا ہے (اور) وہ تو بخشنے والا مہربان ہے۔ اور اس سے پہلے کہ تم پر عذاب آ واقع ہو اپنے پروردگار کی طرف رجوع کر لو اور اس کے فرماں بردار بن جاؤ، (ورنہ) پھر تم کو مدد نہیں ملے گی۔‘‘ (صحیح بخاری،کتاب التفسیر،سورۃالزمر،حدیث:4532،وصحیح مسلم،کتاب الایمان،باب کون الاسلام یھدم ماقبلہ،حدیث:122۔)
ان آیات میں یہی شرط ہے کہ اللہ کی طرف جھکا جائے اور اسی کی طرف رجوع کیا جائے۔ ان کے علاوہ سورۃ الفرقان کی مذکورہ بالا آیات بھی نازل ہوئیں (وَالَّذِينَ لَا يَدْعُونَ مَعَ اللَّـهِ إِلَـٰهًا آخَرَ۔۔)۔ میں اس لڑکی سے یہی کہتا ہوں کہ آپ کے لیے اس آدمی سے شادی کرنا حلال نہیں ہے، سوائے اس کے کہ وہ بھی اس طرح کی بدکاری سے توبہ کر لے۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمان عورت کے لیے حرام ٹھہرایا ہے کہ وہ کسی بدکار سے نکاح کرے اور ایسے ہی مسلمان مرد کے لیے حرام ہے کہ وہ کسی بدکار عورت سے نکاح کرے:
﴿لزّانى لا يَنكِحُ إِلّا زانِيَةً أَو مُشرِكَةً وَالزّانِيَةُ لا يَنكِحُها إِلّا زانٍ أَو مُشرِكٌ وَحُرِّمَ ذٰلِكَ عَلَى المُؤمِنينَ ﴿٣﴾... سورةالزمر
’’بدکار مرد بدکار یا مشرک عورت کے سوا کسی سے نکاح نہیں کرتا، اور بدکار عورت کو بھی بدکار یا مشرک مرد کے سوا اور کوئی نکاح میں نہیں لاتا، اور یہ (بدکار سے نکاح کرنا) مومنوں پر حرام ہے۔‘‘
یہ الفاظ اگرچہ خبریہ ہیں مگر مراد نہی اور منع ہے۔ تو اگر وہ توبہ کر چکا ہو تو اس سے نکاح کی شرط یہ ہے کہ آپ کا ولی اس سے آپ کا نکاح کرے۔ اور اس مرد سے نکاح اس کبیرہ کی وجہ سے قطعا نہیں ہے جو آپ کے درمیان واقع ہو چکا ہے، اس حادثہ کا اس مسئلہ سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے۔
بہرحال میں آپ کو توبۃ النصوح کی اور کثرت سے اعمال خیر کی نصیحت کرتا ہوں۔ اللہ عزوجل کا فرمان ہے:
﴿وَأَقِمِ الصَّلوٰةَ طَرَفَىِ النَّهارِ وَزُلَفًا مِنَ الَّيلِ إِنَّ الحَسَنـٰتِ يُذهِبنَ السَّيِّـٔاتِ ذٰلِكَ ذِكرىٰ لِلذّٰكِرينَ ﴿١١٤﴾... سورةهود
’’اور دن کے دونوں اطراف (صبح و شام) اور رات چند ساعات میں نماز پڑھا کرو، کچھ شک نہیں کہ نیکیاں گناہوں کو دور کر دیتی ہیں، یہ ان کے لیے نصیحت ہے جو نصیحت قبول کرنے والے ہیں۔‘‘
ایسے ہی سورۃ الفرقان کی آیات جو پیچھے گزری ہیں، جن میں ہے کہ ۔۔
إِلَّا مَن تَابَ ۔۔ الخ (الفرقان: 70)
’’یعنی جس نے توبہ کر لی اور ایمان لایا اور نیک کام کیے تو اللہ ایسے لوگوں کے گناہوں کو نیکیوں سے بدل دے گا۔‘‘
آپ کا اس آدمی سے شادی کر لینا توبہ یا اس گناہ کی مغفرت کی شرط نہیں ہے، بلکہ وہ صرف توبہ کرنا ہے اور اعمال صالھہ کثرت سے کرنا ہے۔ آپ کو چاہئے کہ ہمیشہ اللہ سے ڈرتی رہیں، کہیں دوبارہ آپ کے قدم نہ ڈگمگا جائیں، اور نکاح کے لیے آپ کے ولی کا ہونا شرط ہے، بشرطیکہ اس آدمی نے بدکاری سے توبہ کر لی ہو اور آپ کے ولی کے ذریعے سے نکاح کرے، کیونکہ وہ اور آپ دونوں ہی اپنے معاملے سے آگاہ ہیں اگر اندیشہ ہو کہ آپ کی رسوائی ہو سکتی ہے تو اسی سے شادی کر لیں۔
اور وہ بچہ جس کا آپ نے اسقاط کرایا ہے، اس بارے میں اللہ عزوجل سے توبہ ہی کریں، خالص توبہ۔ اس کے علاوہ اور کوئی کفارہ نہیں ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب