السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک عورت بدکاری کے نتیجے میں حاملہ ہو گئی ہے۔ اب اس کا ولی اسی زانی سے اس کا نکاح کر دینا چاہتا ہے جبکہ ابھی وضع حمل نہیں ہوا۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ اس حمل کی کوئی حرمت و کراہت نہیں ہے۔ تو کیا یہ جائز ہے کہ زانی اس عورت سے نکاح کر لے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس آدمی کو جائز نہیں ہے کہ اس عورت سے نکاح کر سکے حتیٰ کہ وہ توبہ کرے اور وضع حمل سے اس کی عدت پوری ہو۔ کیونکہ ان دونوں نطفوں میں (بصورت زنا اور بصورت نکاح) نجاست و طہارت اور طیب اور خبیث ہونے کا فرق ہے۔ اور ان کا صنفی ملاپ بھی حلال اور حرام کے اعتبار سے مختلف ہے۔ ([1])
[1] بلاشبہ کسی عفیف مرد یا عورت کے لیے جائز نہیں ہے کہ اس قسم کے کسی بدخصلت سے نکاح کا تعلق قائم کرے۔البتہ اس گناہ میں ملوث مردوعورت کو آپس میں جوڑدینے کی علمائے احناف نے رخصت دی ہے۔فتاویٰ نذیریہ،جلددوم،کتاب النکاح،ص:470میں اس انداز کے چند ایک سوال وجواب موجود ہیں۔ان میں سے ایک درج ذیل ہے:
سوال:ایک عورت بیوہ کو ایک شخص کا حمل حرام کا ہے۔اب یہ عورت مذکورہ انہی ایام حمل میں اسی شخص کے ساتھ جس کا اس کو حمل حرام ہے نکاح کرسکتی ہے یانہیں؟اور اگر نکاح کرسکتی ہے تو بعد نکاح تاوضع حمل اپنے خاوند سے صحبت اور وطی وغیرہ کراسکتی ہے؟بموجب قرآن وحدیث کے جواب مرحمت فرمایاجائے۔
جواب:بیوہ مذکورہ ایام حمل میں اس شخص کے ساتھ جس سے اس کو حمل حرام کا ہے نکاح کرسکتی ہے کیونکہ یہ دونوں زانی ہیں۔اور زانیہ کا نکاح زانی سے جائز ہے۔اور یہ شخص بعد نکاح کے اس بیوہ منکوحہ کے ساتھ وطی بھی کرسکتا ہے،کیونکہ یہ حمل اس شخص کا ہے،استبرائے رحم کی کچھ حاجت نہیں ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب