سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(696) بے نمازی اور شرعی پردہ کی پابندی نہ کرنے والی بیوی کو طلاق دینا

  • 18303
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-24
  • مشاہدات : 1451

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

جب بیوی نماز اور شرعی پردے کی پابند نہ ہو تو کیا شوہر پر اس کو طلاق دینا  واجب ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس قول کی بنا پر کہ نماز چھوڑنا کفر ہے، شوہر نے جب اسے ہر طرح سے سمجھایا اور حکم دیا ہے کہ وہ نماز پڑھا کرے اور پھر بھی نہیں مانتی ہے تو ایسی عورت کو بطور بیوی رکھنا جائز نہیں ہے۔ اور آیت کریمہ:

﴿وَأمُر أَهلَكَ بِالصَّلو‌ٰةِ وَاصطَبِر عَلَيها ... ﴿١٣٢﴾... سورةطه

’’اور اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم دے اور اس کی پابندی کر۔‘‘

اس میں (وَاصْطَبِرْ عَلَيْهَا) ضمیر قریب ترین مذکور کی طرف لوٹ رہی ہے، اور وہ ہے (الصلوة) تو اس آیت کریمہ کامفہوم یہ ہے کہ "اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم دو اور نماز کی پابندی کرو۔" اور اللہ عزوجل کا فرمان ہے:

﴿ لا تُكَلَّفُ إِلّا نَفسَكَ وَحَرِّضِ المُؤمِنينَ ... ﴿٨٤﴾... سورةالنساء

’’تو صرف اپنی جان کا مکلف اور ذمہ دار ہے، اور مومنین کو ترغیب دے۔‘‘

اور احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ نماز کا تارک کافر ہے، خواہ وہ سستی اور کسل مندی ہی سے چھوڑے۔ صحیح مسلم میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی معروف حدیث ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بندے اور اس کے شرک اور کفر کے درمیان فرق نماز چھوڑنے کا ہے۔‘‘ (صحیح مسلم،کتاب الایمان،باب اطلاق اسم الکفر علی من ترک الصلاۃ،حدیث:82،ومسند احمد بن حنبل:389/3،حدیث:15221۔) سنن ابی داؤد کے علاوہ دیگر سنن میں حضرت بریدہ اسلمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ہمارے اور ان (کفار) کے درمیان نماز ہی کا عہد ہے، جس نے اسے چھوڑ دیا اس نے کفر کیا۔‘‘ (سنن الترمذی،کتاب الایمان،باب ترک الصلاۃ،حدیث:2621،وسنن النسائی،کتاب الایمان،باب الحکم فی تارک الصلاۃ،حدیث:463وسنن ابن ماجہ،کتاب اقامۃالصلاۃ والسنۃفیھا،باب ماجاءفیمن ترک الصلاۃ،حدیث:1079۔) یہ کہنا صحیح نہیں کہ جس نے "نماز کا انکار کرتے ہوئے اسے چھوڑا، وہی کافر ہے۔" کیونکہ اس بات پر تو سب ہی کا اتفاق ہے کہ انکار کرتے ہوئے چھوڑنے والا کافر ہے۔ جناب عبداللہ بن شقیق، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے نقل کرتے ہیں کہ وہ اعمال شریعت میں سے نماز کے علاوہ کسی کے ترک کو کفر نہیں سمجھتے تھے۔ اور اس کی سند بھی گزشتہ روایت کی طرح صحیح ہے۔ اور سبھی جا اجماع ہے کہ اگر کوئی آدمی شریعت کے کسی بھی کام کا انکار کر دے تو وہ کافر ہو جاتا ہے۔ تو کس طرح سمجھا جا سکتا ہے کہ نماز کے تارک کا کوئی اور حکم بتایا جائے۔ کیونکہ اس پر بھی اتفاق ہے کہ وہ ان اعمال میں سے نہیں ہے جن کے ترک کو ’’ کفر دون کفر‘‘ کہا جائے (یعنی کم درجے کا کفر)۔ جبکہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے آیت ذیل میں مذکورہ کفر کو ’’کم درجے کا کفر‘‘ کہا ہے (المستدرک للحاکم:342/2،حدیث:3219السنن الکبری للبیھقی:20/8،حدیث:15632۔) یعنی:

﴿وَمَن لَم يَحكُم بِما أَنزَلَ اللَّهُ فَأُولـٰئِكَ هُمُ الكـٰفِرونَ ﴿٤٤﴾... سورةالمائدة

’’اور جو اللہ کے نازل کردہ کے مطابق فیصلے نہ کریں وہ کافر ہیں۔‘‘

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

احکام و مسائل، خواتین کا انسائیکلوپیڈیا

صفحہ نمبر 494

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ