سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(684) ايامِ مخصوصہ کے دنوں میں نکاح کرنا

  • 18291
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-26
  • مشاہدات : 595

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میں ایک نوجوان لڑکی ہوں اور میری شادی ہونے والی ہے، اور جو تاریخیں مقرر کی گئیں ہیں وہ میرے ایام مخصوصہ کے دن ہیں تو کیا ان دنوں میں عقد صحیح ہے؟ اس بارے میں ہماری رہنمائی فرمائیں۔ وجزاکم اللہ خیرا


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس مسئلے کی مناسبت سے یہ وضاحت کر دینا ضروری ہے کہ عقد نکاح اور طلاق میں یہ فرق ہے کہ ایام حیض میں طلاق جائز نہیں ہے بلکہ حرام ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب اس طرح کی صورت حال کا علم ہوا تو آپ بٖڑے غضبناک ہوئے کہ عبداللہ بن عمر (رضی اللہ عنہ) نےاپنی بیوی کو اس حالت حیض میں طلاق دی ہے۔ آپ نے انہیں حکم دیا کہ اس سے رجوع کریں، پھر انتظار کریں حتیٰ کہ وہ پاک ہو، پھر حیض آئے پھر پاک ہو، پھر اگر وہ چاہتے ہوں تو اسے اپنے پاس روکے رکھیں یا چاہے تو (مساس سے پہلے) طلاق دے دیں۔ (صحیح مسلم،کتاب الطلاق،باب تحریم طلاق الحائض بغیر رضاھا،حدیث:1471۔سنن ابی داود،کتاب الطلاق،باب فی طلاق السنۃ،حدیث:2185۔سنن النسائی،کتاب الطلاق،باب وقت الطلاق للعدۃالتی امر اللہ عزوجل،حدیث:3392۔مصنف عبدالرزاق:6/309،حدیث:10960۔) کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿يـٰأَيُّهَا النَّبِىُّ إِذا طَلَّقتُمُ النِّساءَ فَطَلِّقوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ وَأَحصُوا العِدَّةَ وَاتَّقُوا اللَّهَ رَبَّكُم لا تُخرِجوهُنَّ مِن بُيوتِهِنَّ وَلا يَخرُجنَ إِلّا أَن يَأتينَ بِفـٰحِشَةٍ مُبَيِّنَةٍ وَتِلكَ حُدودُ اللَّهِ وَمَن يَتَعَدَّ حُدودَ اللَّهِ فَقَد ظَلَمَ نَفسَهُ ...﴿١﴾... سورةالطلاق

’’اے نبی! جب تم لوگ اپنی عورتوں کو طلاق دینا چاہو تو انہیں ان کی عدت کے وقت طلاق دو اور عدت کو شمار کرو اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرو جو تمہارا رب ہے، انہیں ان کے گھروں سے مت نکالو اور نہ ہی وہ نکلیں، سوائے اس کے کہ کسی کھلی بے حیائی کی مرتکب ہوں، اور یہ اللہ کی حدیث ہیں، اور جو اللہ کی حدوں سے تجاوز کرے گا تو وہ اپنی ہی جان پر ظلم کرتا ہے ۔۔۔‘‘

الغرض مرد کے لیے جائز نہیں ہے کہ اپنی بیوی کو ایام حیض میں طلاق دے، اور نہ اس طہر میں جس میں وہ اس سے ملاپ کر چکا ہو، سوائے اس کے کہ حمل نمایاں ہو چکا ہو۔ حمل واضح ہو جانے کی صورت میں جب بھی طلاق دے گا طلق ہو جائے گی۔ اور عوام میں جو یہ مشہور ہے کہ حمل میں طلاق نہیں ہوتی یہ صحیح نہیں ہے، بلکہ ہو جاتی ہے اور اس میں وسعت ہے، خواہ ان کا ملاپ بھی ہو چکا ہو تب بھی طلاق ہو جائے گی، برخلاف غیر حاملہ کے کہ اگر اس سے ملاپ ہو تو واجب ہے کہ انتظار کرے حتیٰ کہ حیض آ جائے پھر پاک ہو، اور اس طہر میں طلاق دے یا حمل نمایاں ہو جائے تو اس میں بھی طلاق ہو جائے گی۔ اور اللہ عزوجل نے سورۃ الطلاق میں فرمایا ہے:

﴿وَأُولـٰتُ الأَحمالِ أَجَلُهُنَّ أَن يَضَعنَ حَملَهُنَّ ...﴿٤﴾... سورةالطلاق

’’اور حمل والیوں کی مدت عدت یہ ہے کہ وہ بچے کو جنم دے لیں۔‘‘

یہ واضھ دلیل ہے کہ حمل کے دوران میں طلاق ہو جاتی ہے۔ اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی ایک روایت کے الفاظ اس طرح بھی ہیں:

مره فليراجعهما ثم ليطلقها طاهرا او حاملا

’’اسے حکم دو کہ وہ اپنی بیوی کی طرف رجوع کرے، پھر جب وہ طہر سے ہو یا حمل سے تو طلاق دے۔‘‘ (صحیح مسلم،کتاب الطلاق،باب تحریم طلاق الحائض بغیر رضاھا،حدیث:1471۔السنن الکبری للبیھقی:325/7،حدیث:14690۔)

یہ مسئلہ واضح ہو کہ ایام حیض میں نکاح جائز ہے، مگر میں یہ سمجھتا ہوں کہ شوہر کو بیوی کے پاس آنے سے پرہیز کرنا چاہئے، حتیٰ کہ وہ پاک ہو جائے، کیونکہ اس صورت میں اندیشہ ہے کہ کہیں حرام میں داخل نہ ہو جائے، بالخصوص جبکہ جوانی ہے تو اس میں وہ اپنے اوپر ضبط نہیں رکھ سکے گا اس لیے اسے انتظار کرنا چاہئے حتیٰ کہ وہ پاک ہو جائے اور پھر وہ پاکیزگی کی حالت میں اس سے تمتع کر سکے۔

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

احکام و مسائل، خواتین کا انسائیکلوپیڈیا

صفحہ نمبر 485

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ