سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(664) عزل کا کیا حکم ہے؟

  • 18271
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-07
  • مشاہدات : 885

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

عزل کا کیا حکم ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

عزل کے بارے میں کم از کم جو کہا جا سکتا ہے یہی ہے کہ یہ مکروہ اور ناپسندیدہ عمل ہے۔ مکروہ کے بارے میں علماء کے اقوال میں یہ ہے کہ اس میں ایک پہلو جائز ہونے کا بھی ہوتا ہے۔ یعنی بعض اوقات ایک کام جائز ہوتے ہوئے بھی مکروہ یعنی ناپسندیدہ ہوتا ہے۔

عزل کے جائز ہونے کی دلیل حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی وہ حدیث ہے جو صحیح بخاری و مسلم میں مروی ہے، کہتے ہیں کہ ’’ہم عزل کیا کرتے تھے جبکہ قرآن نازل ہو رہا تھا۔‘‘ (صحیح بخاری،کتاب النکاح،باب العزل،حدیث:4911،وصحیح مسلم،کتاب النکاح،باب حکم العزل،حدیث:1440وسنن الترمذی،کتاب النکاح،باب العزل،حدیث:1137وسنن ابن ماجہ،کتاب النکاح،باب العزل،حدیث:1927۔) اس کا مفہوم یہ ہے کہ ہم یہ کام کرتے تھے اور قرآن کریم میں اسکے بارے میں منع کا کوئی حکم نازل نہیں کیا گیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہ جائز ہے۔مگر اس کے باوجود ہم کہتے ہیں کہ یہ مکروہ اور ناپسندیدہ ہے۔ یہ بات ہمیں آپ علیہ السلام کے ان ارشادات سے معلوم ہوتی ہے جو آپ نے بیان فرمائے:

(تزوجوا الودود الولود فانى مباه بكم الامم يوم القيامة  ([1])  وفى لفظ۔ مكاثر بكم الامم يوم القيامة (سنن ابی داود،کتاب النکاح،باب من تزوج الولود،حدیث:2050وسنن النسائی،کتاب النکاح،باب کراھیۃ تزویج العقیم،حدیث:3227والمستدرک للحاکم:176/2،حدیث:2685۔)

’’محبت کرنے والی زیادہ بچے ججنے والی عورتوں سے شادیاں کرو، بلاشبہ میں قیامت کے دن تمہاری کثرت سے دوسری امتوں پر فخر کروں گا۔‘‘

تو جو آدمی اپنی اہلیہ سے عزل کرتا ہے یقینا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس رغبت اور شوق کے خلاف کرتا ہے، اور جو حکومتیں تحدید نسل یا خاندانی منصوبہ بندی وغیرہ کے نام سے مختلف پروگرام چلا رہی ہیں، یہ سب نبی علیہ السلام کی ایک بڑی رغبت اور شوق کے برخلاف ہیں کہ آپ کثرت امت پر فخر کریں گے۔ دوسرے یہ عمل سراسر مغرب کی تقلید ہے جس میں ایک مسلمان، بچوں کی تربیت کے ایک عظیم اجر سے محروم ہو جاتا ہے۔ فرمایا:

إذا مات ابن آدم انقطع عمله إلا من ثلاث: صدقة جارية، أو علم ينتفع به، أو ولد صالح يدعو له

’’ابن آدم جب فوت ہو جاتا ہے تو سوائے تین صورتوں کے اس کے اعمال کا سلسلہ منقطع ہو جاتا ہے۔ کوئی جاری رہنے والا صدقہ، یا نفع آور علم، یا نیک صالح بچہ جو اس کے لیے دعا کرتا رہے۔‘‘ (صحیح مسلم،کتاب الوصیۃ،باب ما یلحق الانسان من الثواب،حدیث:1631وسنن الترمذی،کتاب الاحکام،باب فی الوقف،حدیث:1376۔سنن النسائی،کتاب الوصایا،باب فضل الصدقۃ عن المیت،حدیث:3651ومسند احمد بن حنبل:372/2،حدیث:8831)

اسی طرح صحیح بخاری میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:

ما من مسلمين يموت لهما ثلاثة من الولد الا لم تمسه النار الا تحلة القسم

’’نہیں کوئی دو مسلمان میاں بیوی کہ ان کے تین بچے ہو جائیں تو انہیں آگ چھوئے، سوائے قسم پوری ہونے کے۔‘‘ (صحیح بخاری،کتاب الایمان والنذور،باب قول اللہ تعالیٰ:واقسمواباللہ جھدابمافھم،حدیث:6280وصحیح مسلم،کتاب البر والصلۃوالاداب،باب فضل من یموت لہ ولد فیحتسبہ،حدیث:2632وسنن النسائی،کتاب الجنائز،باب من یتوفی لہ ثلاثۃ،حدیث:1875۔یہ متعدد مقامات پر مروی ہے اور ہر مقام پر مختلف الفاظ ہیں۔

تو کفار کے پاس اس قسم کی فضیلتیں کہاں ہیں جو ہمارے پاس ہیں۔ مختصر یہ کہ اگر کوئی مسلمان طبیب یا ڈاکٹر عورت کی صحت کے پیش نظر فیصلہ دے تو تحدید نسل جائز ہے۔


[1] الفردوس بماثور الخطاب المعروف مسند الدیلمی:2/130،حدیث:2663۔دیلمی کی اس روایت میں الفاط یکسر مختلف ہیں البتہ"فانی مباہ بکم الامم"فتویٰ میں موجود الفاظ سے مشترک ہے۔تاہم فتویٰ میں بیان کیے گئے الفاظ بعینہ مجھے نہیں مل سکے۔واللہ اعلم وھو الغفور۔(عاصم)

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

احکام و مسائل، خواتین کا انسائیکلوپیڈیا

صفحہ نمبر 470

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ