السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میں نے سنا ہے کہ بہت سے شوہر جب سفر پر جانے لگتے ہیں یا لمبی مدت کے بعد واپس آتے ہیں تو اپنی بیویوں کے سامنے نہیں آتے ہیں، کیا اس بات کی کوئی شرعی بنیاد بھی ہے؟
فائدہ:۔۔۔۔۔دراصل بالخصوص نئے نئے شادی شدہ جوڑوں میں ایسے ہوتا ہےکہ فطری شرم وحیا اور معاشرتی آداب کے تحت وہ دوسرے افراد کی موجودگی میں اپنے مابین جذباتی انداز میں الوداعی یا استقبالی آداب نہیں بجالاسکتے۔ماں بیٹا یا بہن بھائی کے لیے یہ آداب بجا لانا قطعاً مشکل نہیں ہوتے جبکہ میاں بیوی کے لیے سب عزیزوں کے سامنے اپنے جذباتی تعلق کا اظہار بہت مشکل ہوسکتا ہے۔بہرحال عمومی انداز میں سلام مصافحہ اور کلمات کا تبادلہ ہونا چاہیے،اور شرم وحیا کے تحت زوجین کا دوسروں کے سامنے انقباض کوئی عیب بھی نہیں ہے بلکہ شرم وحیا کا یہ مادہ اپنے اندر سراسر خیر کا حامل ہے۔جیسے کہ نبی کریمﷺ نے دیکھا کہ ایک شخص اپنے بھائی کو ھیا کے بارے میں نصیحت کررہا تھا تو آپ نے فرمایا((الحیاءمن الایمان۔))’’حیا ایمان کا حصہ ہے۔‘‘(صحیح مسلم،کتاب الایمان،باب بیان عدد شعب الایمان)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
یہ باتیں جو ذکر کی گئی ہیں ان کی شریعت میں کوئی اصل نہیں ہے، اور رسم و رواج کو دین سمجھ کر ان کی پابندی کرنا بدعت ہے، چاہئے کہ انہیں ترک کیا جائے۔ ہاں اس قدر ضروری ہے کہ آدمی جب لمبے سفر سے کافی دنوں کے بعد واپس آ رہا ہو تو رات کو اچانک اپنی اہلیہ کے پاس نہ آئے اور نہ اچانک دھوکے سے گھر میں داخل ہو، کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ اس سے کوئی ایسی چیز پائے جو ناپسندیدہ ہو اور پھر وہ اس کے لیے نفرت کا باعث بن جائے۔ بلکہ مہلت دے حتیٰ کہ بیوی کو شوہر کی آمد کی اطلاع ہو جائے اور پھر وہ اس کے استقبال کے لیے تیار بھی ہو سکے۔ یہ امور میاں بیوی کے مابین حسن معاشرت کے آداب میں سے ہیں، بلکہ ان کے مابین خیر و صلاح کے ضامن ہیں۔ صحیح حدیث میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آدمی کو رات کے وقت اپنے گھر آنے سے منع فرمایا ہے (صحیح بخاری،کتاب الحج،ابواب العمرہ،باب لا یطرق اھلہ اذا بلغ المدینۃ،حدیث:1707ومسند احمد بن حنبل:3/451،حدیث:15774۔مصنف ابن ابی شیبۃ:6/537،حدیث:33647۔السنن الکبری للبیھقی:5/260،حدیث:10151۔) اور یہ بھی فرمایا ہے کہ:
إذا طال أحدكم الغيبة ، فلا يطرق أهله ليلاً(صحیح بخاری،کتاب النکاح،باب لا یطرق اھلہ لیلا اذا اطال الغیبۃ،حدیث:4946۔مسند احمد بن حنبل:3/396،حدیث:15300۔)
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے
’’جب تم میں کوئی لمبی مدت کے بعد واپس آئے تو رات کے وقت اپنے گھر والوں کے ہاں مت آئے۔‘‘ فرمایا
إذا دخلت ليلا فلا تدخل على أهلك حتى تستحد المغيبة وتمتشط الشعثة(صحیح بخاری،کتاب النکاح،باب طلب الولد،حدیث:4948ومسند احمد بن حنبل:298/3،حدیث:14220وسنن النسائی الکبریٰ:362/5،حدیث:9145)
’’جب تو رات کو پہنچے تو اپنی اہلیہ پر مت داخل ہو حتیٰ کہ غائب سمجھنے والی استرا استعمال کر لے اور پراگندہ رہنے والی کنگھی وغیرہ کر لے۔‘‘
تو آپ علیہ السلام نے یہ حکمت بیان فرمائی ہے کہ اچانک تیاری کا موقع دیے بغیر اہلیہ کے پاس جانا مکروہ ہے۔ ہاں اگر آمد سے پہلے اپنے آنے کی اطلاع دے دے اور متعین کر دے کہ فلاں وقت میں پہنچوں گا تو اس صورت میں وہ جس وقت بھی آئے جائز ہو گا، اسے اچانک داخل ہونے والا نہیں سمجھا جائے گا۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب